صرف ہندووں کو فطری شہری سمجھنا ، ہندوستانی نظریہ شہریت کو دھکہ

مذہب ، زبان یا غربت کے سبب دوسرے درجہ کا شہری بنائے جانے والوںکو اب شہریت سے ہی محروم کرنے کی کوشش

نئی دہلی ۔ /5 اگست (سیاست ڈاٹ کام) ملک کی ممتاز سیاسی تجزیہ نگار و جہدکار نیرجا گوپال جیال نے آسام میں شہریوں کے قومی رجسٹریشن (این آر سی) سے پیدا شدہ صورتحال کو انتہائی تشویشناک اور قانونی اعتبار سے ناقابل قبول قرار دیا ہے اور کم تر ’’اگر (صرف) ہندو ہی فطری شہری ہوں گے تو یہ شہریت کے ہندوستانی نظریہ کے لئے ایک بہت بڑا دھکہ ثابت ہوگا ‘‘ ۔ نیرجا گوپال جیال نے اس مسئلہ پر انتہائی اہم معلومات پر مبنی حقیقت پسندانہ تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’مجھے ایسا نظر آتا ہے کہ آج کے دور میں جو کوئی بھی اپنے مذہب ، زبان یا غریبی کے سبب دوسرے درجہ کا شہری بنا ہوا ہے اب اس کو دوسرے درجہ کے شہری کے فرضی وقار و احترام سے بھی محروم کردینے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ چنانچہ انہیں شہریت سے ہی محروم کیا جارہا ہے ۔‘‘ ۔ نیرجا گوپال جیال نے مزید کہا کہ دہلی ، ممبئی اور دیگر مقامات پر بھی بی جے پی قائدین بیک آواز ہوکر آسام جیسے این آر سی کے لئے مطالبے کرنے لگے ہیں ۔ آسام این آر سی کا مطلب دنیا کے ایک کروڑ بے وطن افراد میں مزید 45 لاکھ کا اضافہ کرنا ہوگا ۔ خواہ اس کے جو کچھ بھی سیاسی عواقب ہوں بہرحال یہ کوئی قابل فخر کارنامہ نہیں ہے ۔ اس سوال پر کہ آیا آسام کے یہ افراد اگر فی الواقعی غیرقانونی ہیں تو کیا کیا جائے ۔ انہوں نے جواب دیا کہ غیرقانونی بیرونی افراد کے الزام پر معتبر انداز میں انحصار بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ کیونکہ یہ عمل کافی حد تک دستاویزات پر منحصر ہوتا ہے ۔ تاریخی طور پر ہم ہمارا معاشرہ دستاویزات پر مبنی نہیں ہے ۔

حتی کہ صداقتنامہ پیدائش بھی جیسے کل ہی کی بات ہے ۔ اس طرح حقیقی شہریوں کے پاس اپنے بزرگوں کا شجرہ نسب بنانے دستاویز نہیں ہیں ۔ جبکہ غیر قانونی مہاجرین شہریت کے ثبوت کے طور پر یہ حاصل کرسکتے ہیں کیونکہ دستاویزات پر مبنی شہریت آسانی کے ساتھ خریدی جانے کے لئے کافی بدنام ہے ۔ اس سوال پر کہ آیا ان افراد کو غیر قانونی قرار دیئے جانے کی صورت میں کیا ہوگا ؟ نیرجا گوپال جئیال نے جواب دیا کہ ’’پہلی بات تو یہ ہے کہ بنگلہ دیش کے ساتھ کسی واضح معاہدہ کے بغیر انہیں ملک بدر نہیں کیا جاسکتا اور اس قسم کا کوئی معاہدہ آسان نہیں ہوتا ۔ چنانچہ میں کوئی بھی کوشش خود ہماری طرف سے روہنگیا جیسا نیا مسئلہ پیدا کرلینے کے مترادف ہوگی ۔ اب وہ رحم دل اور ہمدرد ہندوستان نہیں رہا جس نے پہلے کبھی اپنی سرزمین پر تبتیوں کا خیرمقدم کیا تھا ۔ افغانستان اور سری لنکا کے ٹاملوں کو گھر دیا تھا ۔ بے وطن افراد کی شخصیت میں کئی پہلوؤں کا فقدان پیدا ہوجاتا ہے اور حقیقت تو یہ ہے کہ ان کے پاس وہ بھی باقی نہیں رہ جاتا جس کو شہرۂ آفاق سیاسی مبصر و تجزیہ نگار حنا ایرنڈٹ نے ’’حقوق کی خواہش کا حق ‘‘ کہا تھا ۔ اس طرح یہ خالصتاً انسانی بحران ہے ۔ جس کے تحت انسانوں کے انسانی وقار سے محروم کیا جارہا ہے اور ان افراد کے ساتھ کسی سیاسی کھیل میں ان پیادہ مہروں جیسا سلوک کیا جارہا ہے جن کی کوئی قدر و قیمت ہی نہیں ہے ۔ مزید براں مذہب کو بھی اس کشید میں شامل کردیا گیا ہے تو وہ اور بھی خطرناک زہر بن گئی ہے … کہ اب سماجی ٹھیکہ داروں کے نام نہاد نگران ہجوموں کی طرف سے سڑکوں پر برسرعام شہریت ثابت کرنے کا مطالبہ کئے جانے پر شائد ہی کوئی حیرت ہوگی ۔ ٹائمز آف انڈیا میں شائع انٹرویو میںشہریت پر ہندوستان کے منفرد نظریہ کے بارے میں نیرجا گوپال جیال نے کہا کہ ہمارے دستور سازوں نے خون یا نسب کے بجائے پیدائش پر شہریت کا شمولیاتی اصول پسند کیا ۔