حیدرآباد۔صدر جمہوریہ ہند پرنب مکرجی نے چہارشنبہ کے روز نظام آف حیدرآباد میرعثمان علی خان کو دوراندیش قراردیا‘ جنھوں نے 100سال قبل عثمانیہ یونیورسٹی قائم کی تھی۔یونیورسٹی کی صدسالہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صدر جمہوریہ نے کہاکہ اعلی تعلیم کے لئے معیاری یونیورسٹی کا حیدرآباد میں قیام نظام کا دیرینہ خواب تھا۔
انہوں نے صدسالہ جشن کا افتتاح کرتے ہوئے کہاکہ ’’ سو سال قبل آج ہی کے دن دوراندیش میرعثمان علی خان ریاست حیدرآباد کے آخری نظام کا عزم تھااور حیدرآباد میں ایک عالمی معیار کی یونیورسٹی کے قیام کا خواب دیکھا تھا‘‘۔انہوں نے کہاکہ ان سو سالوں میں کئی تاریخی واقعات کو یونیورسٹی نے مشاہدہ کیا ہے جس میں دو عالمی جنگیں ‘ ہندوستان کی آزادی اور ریاست تلنگانہ کا قیام بھی شامل ہے۔
صدر جمہوریہ ہند نے کہاکہ عثمانیہ یونیورسٹی کا قیام اس عزم کے ساتھ عمل میں لایاگیاتھا آزاد ذہن کے لوگوں یہاں پر جمع ہوسکیں اور پوری آزادی کے ساتھ اپنے نظریات تبدیل کرسکیں اور پرامن ماحول کا استفادہ اٹھاسکیں۔مسٹر پرنب مکرجھی نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ ہندوستانی یونیورسٹی بنیادی تحقیق اور جدت میں بہت پیچھے چھوٹ گئی ہے۔
انہوں نے کہاکہ’’ بنیادی تحقیق اور تجدید اگر نذ ر انداز ہوتی ہے تو ہم کبھی بھی تعلیمی معیار کوبرقرار نہیں رکھ سکتے ۔ میں صرف تعلیمی اداروں کو مورد الزام نہیں ٹہررہاہوں کیونکہ متواتر بلاتاخیر کے فنڈز کی اجرائی تا تو حکومت کی جانب سے ہونی چاہئے یا پھر صنعتوں کو جانب سے ‘‘۔
انہوں نے کہاکہ ریاست کاسرمایہ درکار ضرورتوں کی تکمیل ممکن نہیں ہے ۔ انہوں نے مزیدکہاکہ صنعتوں کو بھی اس کام میںآگے آنے کی ضرورت ہے اور انڈسٹری اور تعلیمی اداروں کے درمیان میں رابطے قائم کرنا ضروری ہے۔اس موقع پر انہوں نے ہندوستان کے پہلے وزیرتعلیم مولانا عبدالکلام آزاد کے حوالے سے کہاکہ انہوں نے تحقیق او رتجدید کو سماج سے جوڑنے کا کام کیاتھا کیونکہ یونیورسٹی تنہا نہیں رہ سکتی۔
سال1917میں 26اپریل کے روز ہی میرعثمان علی خان نے نے شاہی’ فرمان ‘ جاری کرتے ہوئے یونیورسٹی قائم کرنے کا اعلان کیاتھا ۔
یہ ہندوستان کی پہلی یونیورسٹی تھی جس کا ذریعہ تعلیم اُردو تھا ۔ ہندوستان کی آزادی کے بعد اس کو اُردو سے انگریزی میڈیم میں تبدیل کردیا گیا۔