ایسل گروپ کے چیرمن سبھاش چندرا نے دوروز قبل کہاکہ ان کی کمپنی انفراسٹچکر میں بھاری گرواٹ کی وجہہ سے معاشی بحران کاشکار ہوگئی ہے‘ ائی ایل این ایف سی بحران اور ویڈیوکان کے ڈی ٹو ایچ بزنس میں غیر معمولی گراوٹ اس کا نتیجہ ہے۔
نئی دہلی۔قرض دہندگان سے معذرت چاہتے ہوئے چندرا نے الزام عائد کیا کہ کچھ منفی طاقتیں فلیگ شپ ادارے زی انٹرٹینمنٹ انٹرپرئزس میں اسٹرٹیجک سیل ذریعہ پیسہ اکٹھاکرنے کی کوششوں کو سبوتاج کرنے کے لئے کام کررہ ہیں۔
چندرا کے اس الزام کی توثیق جمعہ کے روز اس وقت ہوئی جب زی کے شیئر میں بی ایس ای کے لئے 319.35سے 26.43فیصد کی گرواٹ ائی‘ وہیں دیگر گروپ کمپنی کے شیئر جیسے ڈش ٹی وی 22.60روپئے سے 34.74فیصد کا اچھال آیا۔اپنے ایک کھلے مکتوب میں چندرانے قرض کی ادائی پر وضاحت نہیں کی ‘ خود ک محدود رکھتے ہوئے کہاکہ ائی ایل اینڈ ایف سی بحران میں پیدا شدہ مشکلات کے باوجود ڈسمبر تک مذکورہ گروپ نے قرضوں کی ادائی کاکام انجام دیاہے۔
چندرا نے اپنے کھلے مکتوب میں کہاکہ’’ میں اپنے بینکروں‘ این بی ایف سی ‘ اور میوتول فنڈس سے معذرت خواہ ہوں‘ میں اپنی خواہش کے مطابق اپ کی توقعات پر پورا نہیں اترا ہوں‘ حالانکہ اس کے لئے میں نے پوری ایمانداری کے ساتھ جستجو کی ہے‘‘۔
چندرا نے اپنے مکتوب میں قرضہ جات کی ادائی کے متعلق سنجیدگی ظاہر کرتے ہوئے قرض دہندگان پر زوردیا کہ وہ کسی قسم کا ردعمل پیش نہ کریں ‘ ادارہ قرضوں کی ادائی میں سنجیدہ ہے اور اگر وہ ردعمل کے طور پر کسی قسم کی کاروائی کرنے کے متعلق سونچیں گے تو یہ دونوں کے لئے نقصاندہ ثابت ہوگا۔
انہوں نے انتباہ اور دعوی کیا کہ مشکل حالات میں کوئی بھی ادارہ اپنے اقتصادی پریشانیوں کے باوجود ’’ تاج میں لگے جواہرات‘‘ کو فروخت کرنے کافیصلہ نہیں کرتا ‘جس طرح ہم کوشش کررہے ہیں
چندرا نے دعوی کہاکہ ان کی حالیہ لندن میٹنگ کے بعد 26.43فیصد میں 319.35روپئے کا اچھال آیا ‘‘ جمعہ کے روز سیل کے عمل پر دراڑ دالنے کی کوشش کی گئی۔
چندرا نے انفرادی طور’’ منفی طاقت‘‘ کا استعمال کرتے ہوئے کہاکہ مشکلات جون2018سے اس وقت شروع ہوئی جب احک نامعلوم مکتوب بینکرس‘ غیر بینکی قرض دہندگان‘ میوتول فنڈس اور شیئر ہولڈرس کو بھیجاگیا۔
چندرا نے ڈی ٹو ایچ ویڈیو کے کاروبار کی تقسیم کا ذکر کرتے ہوئے اس میں ائے اتارچڑھاؤ کا بھی مکتوب میں ذکرکیا۔ انہوں نے کہاکہ پولیس‘ مہارشٹرا ہوم منسٹر او رسیبی کو نومبر2018سے اب تک بہت سارے مکتوب لکھے گئے ‘ مگر مبینہ طور پر کوئی کاروائی نہیں ہوئی۔