یدرآباد۔ حکومت تلنگانہ کی جانب سے ریاست کے طبی شعبے میں جنگی خطوط پر تبدیلیاں لانے کے دعوے تو کئے گئے مگر جب عملی میدان کاجائزہ لیاجائے تو یہ دعوی کھوکھلے ہی ثابت ہورہے ہیں۔
شعبہ طب کے سرکاری محکموں اور اداروں کو کارپوریٹ طرز پر ترقی دینے کے اعلانات اور سرکاری دواخانو ں کو بنیاد ی سہولتوں سے لیز کرنے کے وعدے ‘ نئے دواخانوں کی تعمیر کا بھروسہ اس وقت غلط ثابت ہوجاتا ہے جب پرانے سر کاری دواخانوں میں سہولتوں کی کمی کی باتیں سامنے آتی ہیں۔
پرانے شہر کی عوام کے یوں تو عثمانیہ جنرل اسپتال اور شفاء خانہ چارمینار پہلے سے موجود ہے مگر یہاں پر بنیادی سہولتوں کی کمی ‘ انتظامیہ کی لاپرواہی اور گندگی کے سبب لوگ خانگی اسپتالو ں علاج کو ترجیح دے رہے ہیں۔ مگر عورتوں او ربچوں کے امراض کا علاج کرانے کے لئے قدیم پیٹلہ برج زچگی خانہ ہے۔
پہلے یہ اسپتال نیا پل کے قریب میں تھا مگر جگہ کی تنگی اور سڑک کی توسیع کے نام پر قدیم اسپتال کو مہندم کرکے پیٹلہ برج کے قریب کروڑ ہاروپئے کی لاگت سے مذکورہ اسپتال کی عالیشان عمارت تعمیرکی گئی ہے ۔ پچھلے سالوں سے یہاں پر بنیادی سہولتوں کی کمی کے متعلق مریض اور ان کے ساتھ رہنے والے لوگ شکایت کرتے آرہے ہیں مگر ریاست کے محکمہ صحت عامہ کی جانب عدم توجہہ اسپتال کے عملے کی حوصلہ افزائی کاسبب بن رہا ہے۔
نئی ریاست تلنگانہ کی تشکیل کے بعد حالات میں تبدیلی کی توقع کی جارہی تھی مگر ایسا نہیں ہوا ۔ آج بھی اسپتال میں مریضوں کی علاج ومعلجہ میں عملہ نہ صرف کوتاہی برتنے کاکام کرتا ہے بلکہ اسپتال میں بڑے پیمانے پر بنیادی سہولتوں کی فراہمی بھی درکار ہے۔پیٹلہ برج اسپتال پرانے شہر کی سرحد پرقائم ہونے کی وجہہ سے حیدرآباد کے مضافاتی علاقے امنگل‘ شمشا آباد‘ شاد نگر ’ محبوب نگر‘ جڑچرلہ اور اس کے اطراف واکناف کے علاقوں سے لوگ بالخصوص حاملہ خواتین یہاں پر آتی ہیں ۔
اوئٹ پیشنٹ میں یومیہ اٹھ سو سے ایک ہزار مریضوں کی آمد کاسلسلہ جاری رہتا ہے جو یہاں پر کارڈس بنانے کے بعد ہر ماہ چیک آپ کے لئے آتے ہیں مگر دوردارز کے علاقوں سے آنے والے لوگوں کے لئے اسپتال کے اندر شب بسری کے کوئی انتظامات نہ ہونے کی وجہہ سے مریض اور اس کے اٹنڈر کو کافی مشکلات کاسامنا کرنا پڑرہا ہے۔
اس کے علاوہ ناقص سکیورٹی کے سبب چوری چکاری کے واقعات بھی پیش آتے ہیں‘ مگر انتظامیہ کی برہمی کے ڈر سے کوئی شکایت کے لئے آگے نہیں آتا ۔
اس کے علاوہ سکیورٹی عملے کے متعلق مریضوں اور اٹنڈرس کی شکایت ہے کہ بنا ء پیسے ادا کئے نہ تو وہ وہیل چیر فراہم کرتے ہیں نہ ہی مریض کو اسٹریچر پر لے کر جانے کا انتظام کرتے ہیں حد تو یہ ہوگئی ہے کہ مریض کو دیکھنے کے لئے آنے والوں کو بھی بنا ء پیسوں کے اسپتال کی عمارت کے اندر نہیں چھوڑتے۔
یومیہ بیس کے قریب نارمل ڈیلیوری اور بڑے اپریشن کے ساتھ ڈیلیوری کہ پندرہ کیس ہوتے ہیں۔زجگی کے بعد خواتین میں’’ کے سی آر کٹ‘‘ کی تقسیم بھی عمل میں لائی جاتی ہے جس کے متعلق خواتین او ر ان کے اٹنڈرس کا کہنا ہے کہ پیشنٹ کی مناسبت سے اسپتال کا عملہ کے سی آر کٹ حوالہ کرنے کی قیمت کا تعین کرتا ہے۔
اگر مریض کی معاشی حالت مستحکم ہوتی ہے تو اس سے زائد پیسے لے جاتے ہیں اگر معاشی حالت خراب رہے تو کم پیسے وصولی جاتے ہیں جبکہ ایک روپئے کی ادائی کے بغیر مذکورہ کٹ حاصل کرنا مریض کا حق ہے۔
اس ضمن میں جب انتظامیہ کے ذمہ داران سے بات کی گئی تو ان کا کہنا ہے کہ اگر کسی بھی مریض کو اس قسم کی شکایت پیش آنے پر وہ ہم سے رجوع ہوتے ہیں جس کے بعد ہم مداخلت کرکے رشوت مانگنے والے لوگوں کے خلاف تادیبی کاروائی کرتے ہیں اور دس سے پندرہ روزتک انہیں نوکری سے برطرف کردیتے ہیں ‘ شکایت کرنے والے مریض کی جانب سے معافی کے بعد ہی ایسے ملازمین کو دوبارہ بحال کیاجاتا ہے ۔
انتظامیہ کے ان دعوؤں میں کہیں پر بھی سچائی نہیں دیکھ رہی ہے کیونکہ ہر روز کٹس کی تقسیم کے لئے اسپتال کے عملے کی جانب سے پیسے وصولنے کی شکایتوں میں کمی نہیں آئی ہے۔ اسپتال میں عملے کی کمی بھی مریضوں کی مشکلات میں اضافہ کاسبب بن رہا ہے ۔
ماضی میں462بیڈس کے لئے 60ڈاکٹرس تھے جن کی تعداد کو گھٹاکر 30کردیا گیا ہے اسی طرح درجہ چہارم کے ملازمین کی تعداد کو دوسو سے گھٹاکر 80کردی گئی ہے۔
اسپتال انتظامیہ کے مسلسل اسرار کے بعد اؤٹ سورسنگ پر دوسو درجہ چہارم کے ملازمین کو فراہم کیاگیا ہے جو سکیورٹی ‘ سنیٹیشن او رسپلائی کے کام انجام دیتے ہیں۔ اسپتال میں دو ایمبولنس تھیں ایک ناکارہ ہوگئی تو دوسری ایمبولنس کی سروس بھی خراب ہے ۔
اسپتال انتظامیہ نے چار نئی ایمبولنس کے حکام کو درخواست پیش کی جس پر منظوری کے اثر بھی دیکھائی نہیں دے رہے ہیں۔
مریض کے ساتھ رہنے والے گندہ ماحول میں پارکنگ کے علاقوں میں بیٹھ کر ناشتہ ‘ لنچ یا رات کاکھانے کے لئے مجبور ہیں‘ برتھ سرٹفیکیٹ کی اجرائی کے لئے بھی بھاری رقم وصولی جارہی ہے ۔ غرض کے سرکاری اسپتال میں علا ج کے لئے آنے والوں کو اپنے کام پورا کرانے کے لئے عملے کو پیسے ادا کرنا پڑرہاہے۔
You must be logged in to post a comment.