انتخابی ضابطہ اخلاق پر عمل آوری، پاکستان الیکشن کمیشن کا 17 ستمبر کی رائے دہی کا شیڈول جاری
اسلام آباد ۔ 3 اگست (سیاست ڈاٹ کام) پاکستان کے صوبہ پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے خود اپنی ہی ضمنی انتخابات کی مہم چلانے سے روک دیا ہے۔ یاد رہیکہ سابق وزیراعظم نواز شریف کو پناما پیپرس معاملہ میں ملک کی سپریم کورٹ نے وزیراعظم کے عہدہ کیلئے نااہل قرار دیا تھا جس کے بعد موصوف اپنے عہدہ سے مستعفی ہوگئے تھے اور ان کی نشست مخلوعہ تھی جس پر شہباز شریف کو انتخابات لڑتے ہوئے کامیابی حاصل کرنا ہوگی۔ انتخابی ضابطہ اخلاق کے مطابق جسے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے جاری کیا گیا ہے، آئینی سربرآوردہ شخصیات بشمول صدر، وزیراعظم اور صوبائی وزرائے اعلیٰ کو ان کے متعلقہ انتخابی حلقوں کا دورہ کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ 17 ستمبر کو منعقد شدنی انتخابات کا شیڈول جاری کردیا گیا ہے جس کے تحت یہ امتناعات عائد کئے گئے ہیں۔ تمام عوامی دفاتر میں اہم عہدوں پر فائز بشمول وزیراعلیٰ پنجاب جو لاہور نیشنل اسمبلی کی نشست (NAI20) کے ضمنی انتخابات کے ایک اہم امیدوار ہیں، کو ہدایت جاری کی گئی ہے کہ موصوف اپنے انتخابی حلقوں کا دورہ نہیں کرسکتے۔ انہیں انتخابی شیڈول کی اجرائی کے بعد کسی بھی پولنگ اسٹیشن پر جانے کی اجازت بھی نہیں ہوگی۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے تمام انتخابی امیدواروں سے یہ وضاحت بھی کردی ہیکہ ان کے انتخابی مصارف 1.5 ملین روپیوں سے تجاوز نہیں کرنے چاہئے اور انہیں مصارف کا پورا گوشوارہ تیار کرنا ہوگا۔
انگریزی اخبار ڈان نے یہ اطلاع دی۔ انتخابی ضابطہ اخلاق کا اطلاق جاریہ ہفتہ الیکشن کمیشن کی جانب سے شیڈول کی تفصیلات جاری کرنے کے فوری بعد عمل میں آیا۔ الیکشن کمیشن نے یہ انتباہ بھی دیا ہیکہ اگر کوئی بھی امیدوار انتخابی ضابطۂ اخلاق کی خلاف ورزی کا مرتکب پایا گیا تو اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ دریں اثناء سیاسی مبصرین نے الیکشن کمیشن کے ضابطۂ اخلاق کو ’’پیچیدہ اور متذبذب‘‘ قرار دیتے ہوئے یہ سوال کیا کہ آخر کسی عوامی نمائندہ کو خود اس کے ہی انتخابی حلقہ کا دورہ کرنے سے کیونکر روکا جاسکتا ہے۔ انتخابات کی روح انتخابی مہمات ہیں جہاں دورہ کرنے والے امیدواروں سے رائے دہندے واقف ہونے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔ ان کی تقاریر کی سماعت کرتے ہیں اور ان کے ایجنڈہ کے بارے میں بھی عوام کو دورہ کے ذریعہ ہی پتہ چلتا ہے۔ ان تمام باتوں کا پرنٹ یا الیکٹرانک میڈیا کے ذریعہ احاطہ نہیں کیا جاسکتا جبکہ قانون ایک لیجسلیٹر کو یہ بھی اجازت دیتا ہے کہ وہ بغیر مستعفی ہوئے دیگر ایوان کیلئے انتخابات لڑ سکتا ہے۔ اسی دوران الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ایک سینئر عہدیدار نے بتایا کہ 65 سالہ شہباز شریف کی جانب سے پرچہ نامزدگی کے ادخال کے بعد ہی واضح تصویر سامنے آئے گی۔ پاکستان کی سیاست میں ا ب یہ ایک منفرد صورتحال پیدا ہوئی ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب نامزدگی کے کاغذات داخل کریں گے اور لازمی بات ہیکہ وہ اپنی امیدواری کیلئے ہی اپنی مہم چلائیں گے کسی اور کیلئے نہیں۔ لہٰذا ان سے یہ جمہوری حق نہیں چھینا جاسکتا۔ یاد رہیکہ اس وقت پاکستان میں نواز شریف کی جگہ شاہد خاقان عباسی عبوری وزیراعظم مقرر کئے گئے ہیں لیکن یہ خبریں بھی گرم ہیں کہ خود انہیں بھی بدعنوانیوں کے متعدد معاملات میں تحقیقات کا سامنا ہے۔ اب اس کا فیصلہ عوام کریں گے کہ شہباز شریف وزیراعظم کے جلیل القدر عہدہ پر فائز ہوتے ہیں یا نہیں۔ نواز شریف تو اس وقت مزے میں ہیں اور ارکان خاندان کے ساتھ مری (پاکستان کا سیاحتی علاقہ) میں پکنک منارہے ہیں اور صدر ممنون حسین کے بارے میں اخبارات نے اب تک کوئی خاص چرچے نہیں کئے ہیں کیونکہ پاکستان میں صدر کو اتنی اہمیت حاصل نہیں ہے جتنی وزیراعظم کو ہے (جمہوریت میں) ورنہ ماضی میں تو فوجی ڈکٹیٹرس ہی ملک کے صدر بن بیٹھے تھے۔