نئی دہلی : آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی مجلس عاملہ سے قبل دارالقضاء کے قیام پر جو بیان سامنے آیا ہے اس نے قومی سیاست میں ایک نئی بحث کا آغاز کردیا ہے ۔حالانکہ ہندوستان میں دارالقضا ء کو ئی نئی چیز نہیں ہے تا ہم اس کو سیاسی مسئلہ بناکر پیش کیا جارہا ہے۔چنانچہ میڈیا میں جاری حمایت ومخالفت کے درمیان شاہی امام سید احمد بخاری نے بھی اپنا رد عمل ظاہر کیا ہے ۔
دوٹوک لہجہ میں کہا کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ کے اس اعلان سے ملت اسلامیہ ہند کوسیاسی نقصان ہوسکتا ہے ۔واضح رہے کہ شاہی امام سید احمد بخاری ۱۵ ؍ روزہ غیر ملکی دورے پر ہیں ۔انہوں نے کہا کہ دارالقضاء ہندوستان کے لئے کوئی نئی چیز نہیں ہے بلکہ یہ ملک کے زیادہ ترشہروں میں قائم ہے لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ کتنے ہمارے بنیادی مسائل خاص طور پر ازدواجی او رعائلی مسائل یہاں حل ہوتے ہیں ؟ کتنے تنازعات کو ہم یہاں حل کروانے لے جاتے ہیں ؟انہوں نے کہا کہ اگر ملت اسلامیہ اپنے مسائل کو لیکر دار القضاء سے رجوع ہوں تو مسائل حل ہوسکتے ہیں ۔
لیکن ایسا نہیں ہوتا نیز ہم خود عدالتوں میں پہنچ جاتے ہیں ۔لہذا سب سے اہم چیز یہ ہے کہ سب سے پہلے ملت میں اس تعلق سے بیداری مہم چلائی جائے ۔انہوں نے کہا کہ جب تک ملت میں بیداری پیدا نہیں ہوگی ظاہر ہے کہ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا ۔انہوں نے کہا کہ جب لوگوں کو یہی نہیں معلوم کہ ان کے کون سے شرعی مسائل یہاں حل ہوسکتے ہیں تو پھر یہاں رجوع کیو ں کریں گے ۔شاہی امام نے کہا ہے کہ اس کے لئے لفظ ’عدالت ‘ کا استعمال ٹھیک نہیں ہے ۔
اس لئے کہ ہندوستان میں عدالت کا مطلب لوگ عدالت ہی سمجھتے ہیں ۔چنانچہ ہم اسے شرعی عدالت کہتے ہیں تو اس کا غلط معنی نکالے جاتے ہیں ۔انھوں نے کہا کہ شرعی عدالت کو اس طرح سے تنقید بنایا جائے گا کہ گویا ملت اسلامیہ ہند عدالت کے مقابلہ کوئی دوسری عدالت قائم کررہی ہے جبکہ ایسا نہیں ہے۔انھوں نے کہا کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ کے اس اعلان سے ملت اسلامیہ کانقصان ہوگا ۔شاہی امام نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ میں دو تین لوگ ہیں جو بی جے پی کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں او ر انکو فائدہ پہنچارہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میں بورڈ کہ ذمہ داران سے کہناچاہتا ہو ں کہ وہ ان لوگوں سے خبردار رہیں ورنہ ملت اسلامیہ کا بہت بڑا نقصان ہوگا ۔