اتحادی ممالک کے داعش کے خلاف آپریشنس غیرمؤثر، صرف 20 فیصد ہدف کو نشانہ بنایا گیا
ماسکو ۔ 2 اکٹوبر (سیاست ڈاٹ کام) روسی پارلیمنٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی کے چیئرمین نے دعویٰ کیا ہے کہ شام میں ان کے ملک کی جانب سے شروع کی گئی فوجی کارروائی تین سے چار ماہ تک جاری رہ سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آنے والے دنوں میں روسی فوج شام میں فضائی حملوں میں مزید شدت لائے گی۔ "یورپ 1” ریڈیو سے بات کرتے ہوئے روسی رکن پارلیمنٹ نے کہا کہ شام میں فوجی مشن کے طول پکڑنے کے امکانات اور خطرات موجود ہیں مگر فی الحال ماسکو کا ارادہ تین سے چار ماہ تک آپریشن جاری رکھنے تک محدود ہے۔ تاہم آنے والے دنوں میں مخصوص اہداف پر حملے تیز کیے جائیں گے۔ روسی عہدیدار کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب روسی صدر ولادیمیر پوتن پیرس میں فرانسیسی، جرمن اور یوکرینی رہنمائوں سے ملاقات کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ درایں اثناء امریکی حکومت نے شام میں روسی فوج کے فضائی حملوں پر ایک بار پھرتحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ روسی فوج کا ہدف دولت اسلامیہ نہیں بلکہ روس اعتدال پسند انقلابی قوتوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ وائٹ ہائوس کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ روس کے خیال میں داعش صدر بشارالاسد کو تحفظ دینے کا ایک ذریعہ ہے۔ یہی وجہ ہے ماسکو داعش کو اپنے حملوں کا ہدف نہیں بنا رہا ہے۔ وائیٹ ہائوس کا مزید کہنا ہے کہ روسی حکومت کو شام میں فضائی حملوں کے اخراجات کا تعین کرنا چاہیے۔ تاہم روسی عہدیدار بوشکوف نے امریکہ کی جانب سے داعش کے خلاف کارروائی نہ کرنے کے الزام کو مسترد کردیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ روس ان تمام انتہا پسند گروپوں کو نشانہ بنائے گا جو شام میں صدر بشارالاسد کے لیے خطرہ بن رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ روس کو میدان میں اس لیے اترنا پڑا ہے کیونکہ امریکہ کی قیادت میں اتحادی ممالک کی جانب سے شام میں داعش کے خلاف آپریشن بے ثمر ثابت ہو رہا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ داعش کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے آپریشن کے دوسرے مرحلے کا آغاز کیا جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پچھلے ایک سال سے ہم سن رہے ہیں کہ امریکا شام میں داعش کے خلاف آپریشن جاری رکھے ہوئے ہے مگر ہمیں اس آپریشن کے نتائج بھی بتائے جائیں کہ آیا اب تک داعش کو کتنا نقصان پہنچایا گیا ہے۔ الیکسی بوشکوف نے کہا کہ امریکہ کی قیادت میں شام میں داعش کے خلاف کارروائیوں میں صرف 20 فی صد اہداف کو بمباری سے نشانہ بنایا گیا ہے جب کہ 80 فی صد اہداف پر کوئی حملہ نہیں کیا گیا۔ روسی رکن پارلیمنٹ نے شام کے بحران کے حل کے لیے ایران اور صدر بشارالاسد کی شمولیت پر مبنی بین الاقوامی کانفرنس کی تجویز کی حمایت کی اور کہا کہ بحران کے حل کے لیے یہ ایک منطقی خیال ہے۔