سیول سروس میں زیادہ سے زیادہ مسلمانوں کو شامل کرنے کے لئے اپنی تمام عمر لگادینے والی قدوس صاحب کا47سال کی عمر میں انتقال ہوا

مالیگاؤں۔ سیول سرویس امیدواروں کے لئے بے لوث طریقے سے خدمات انجام دینے والے چاہتے ٹیچر قدوس سر اب نہیں رہے۔جمعہ کے روز صبح چھ بجے ان کا انتقال ہوا اور بعد نماز جمعہ مالیگاؤں کے بڑے قبرستان میں سینکڑو ں لوگوں می موجودگی میں ان کی تدفین عمل میں ائی۔

ان سے میر پہلی ملاقات کافی دلچسپ رہی ۔ میں جے اے ٹی کالج سے میرے ماموں او ردوست الطاف امین کے ہمراہ اپنے گھر واپس جارہا تھا‘ جب انہوں نے مجھے رکنے کو کہا۔ ماما نے ایک نوجوان شخص سے میرے ملاقات’’ قدس سر‘‘ کہتے ہوئے کرائی۔

میں ہکا بکا رہ گیا کیونکہ جو شخص میرے سامنے کھڑا تھا وہ ایک سیکل کی سواری کرتا ہے۔ ماما نے بغیرتوقف کے کہاکہ’’ میں نے تم سے کہاتھا وہ سیول سرویس امیدواروں کے لئے تربیتی کلاسس چلاتے ہیں‘‘ ۔ میں نے جواب میں ہاں کہا۔سال 2010میں میری ان سے پہلی ملاقات ہائے ہیلو تک ہی محدو د رہی۔

قدوس سر ہاتھ بنکر عبدالطیف کے اکلوتے بیٹے تھے ‘ رنگ برنگی سڑیوں کی سربراہی او رتیاری میں ان کا اچھا نام تھا۔میری دوسری ملاقات قدوس سر سے 2013میں اس وقت ہوئے جب میری دعوت پر آسام سے فردینہ عدیل‘ اترپردیش سے حماد ظفر‘ او مہارشٹرا سے شکیل انصاری مالیگاؤں ائے ہوئے تھے۔

ان تینوں نے 2012کا یو پی ایس سی امتحان میں کامیابی حاصل کی تھی او ر اس شہر سے جہاں پر ’’ ہر گھر ایک سیول سرونٹ‘‘ کی تحریک جے اے ٹی کیمپس سے شروع کی گئی تھی۔

قد س سر چاہتے تھے وہ ان کے کوچنگ سنٹر ائیں اور اسٹوڈنٹس سے بات چیت کریں۔ ا س وقت ان کا سنٹر نایا پورہ کے مالیگاؤں گرلز ہائی اسکول میں جو جماعت اسلامی کی عمارت تھی میں چل رہا تھا۔ سنٹر اس وقت زیرتعمیر تھا جس میں70طلبہ کسی طرح بیٹھ کر کوچنگ لے سکتے تھے۔

وہاں پر کوئی آنکھوں کو لبھانے والا فرنیچر بھی نہیں تھا او رنہ ہی ماڈرن انفرسٹچکر موجود تھا۔ مگر کتابوں کے معاملے میں نہایت اعلی شان ضرور تھا۔یہاں تک حال ہی میں جنھوں نے سیول سرویس امتحانات میں کامیابی حاصل کی ہے وہ بھی اس سے متاثر ہوئے بغیرنہیں رہ سکے۔

ان کے بچپن کے دوست جمیل شفیق نے کہاکہ ’’ مذکورہ تمام کتابیں اپنے ذاتی مصرف سے قدوس سر نے خریدی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ سیول سرویس امتحانات کے امیدواروں سے کوچنگ کے لئے کوئی فیس بھی نہیں لیتے تھے‘‘۔ قدوس سر او رجمیل شفیق نے اپنی گریجویشن ایک ہی کالج سے تکمیل کیاتھا ۔

جہاں پر جمیل شفیق نے زولوجی میں بی ایس سی کیا وہی قدوس سر نے گریجویٹ بی یس سی کیمسٹری کے ساتھ ایم ایس جے کالج مالیگاؤں سے پورا کیا۔ فرقہ وارانہ فسادات اور پولیس کی مشقت کے معمول کے دوران دونوں مالیگاؤں میں بڑے ہوئے۔

پڑھائی میں دوست قدوس سر او رجمیل شفیق ہمیشہ فساد سے متاثرہوئے لوگوں کے متعلق بات کیاکرتے تھے اور ان کے متعلق بھی غور وفکر کرتے تھے جو ان کے قریبی رشتہ دار اور دوست احبا ب تھے جنھیں فسادات کے بعد پولیس نے گرفتار کرلیاتھا۔

جمیل شفیق نے یاد کرتے ہوئے کہاکہ’’ وہ مسلمان ہی تھے جن کی جائیدادوں کو لوٹ لیاگیا تھا یا پھر فسادات میں جلا دیا گیا تھا‘ وہ مسلمان ہی تھے جو پولیس کی گولیوں کاشکار ہوکر مارے گئے اور پھر فساد کے بعد انہیں گرفتارکرلیاگیا۔ قدوس سرکو یہ کڑوا سچ حلق کے نیچے نہیں اتر رہاتھا‘‘۔

ہر روز کے تبادلہ خیال کے بعد آخر کا ریہ بات سامنے ائی کہ یہ سب مسلم پولیس عہدیداروں کی کمی کانتیجہ ہے‘ اوردستور او رقانونی چارہ جوئی کے متعلق معلومات کا فقدان بھی مسلمانوں کے ساتھ کی جانے والی اس بدسلوکی کی ایک اہم وجہہ ہے۔

اور پھر انہو ں نے یو پی ایس سی امتحانات میں شرکت کا فیصلہ کیا۔ یہ ایسے وقت میں لیاگیا فیصلہ تھا جس وقت مالیگاؤں میں 1990کے دہے میں مسلمانوں اپنے گذر بسر کے لئے ہاتھ پیر ماررہے تھے۔

جمیل شفیق کو اب بھی یاد ہے کہ ’’ ان دنوں یوپی ایس سی کے متعلق کوئی نہیں جانتا تھا اوراس کے علاوہ اسی قسم کی مقامی مدد ناممکنات میں سے ایک تھی۔

یہاں تک کہ مقامی کتب فروش بھی ہمیں تعلیمی مواد فراہم کرنے کے موقف میں نہیں تھے۔

ہم نے دہلی سے کتابیں منگائی اور یوپی ایس سی امتحانات کی اپنے سے تیاری شرو ع کردی‘‘۔انہوں نے مزیدبتایا کہ ’’ ایک سال کی کڑی محنت اور اسٹڈیز کے بعدبالآخر1992کے یوپی ایس سی سیول سرویس کے ابتدائی امتحان جوارونگ آباد میں منعقد ہوا تھا اس میں شرکت کی مگر کامیابی کے نشانات حاصل کرنے میں ناکام رہے‘‘۔

ملک کے اعلی بیورکریٹس میں شامل ہونے کے سفر کے لئے ناکام کوشش کے بعد انہوں نے خاندانی بزنس میں شامل ہوجانے کا فیصلہ کیا۔ قدوس سر اپنے والے ٹیکسٹائل کے کاروبار سے جڑ گئے مگر مقامی نوجوانوں کے سیول سرویس امتحانات میں حصہ داری کا ان کا ائیڈیا اب بھی ان کے دماغ میں چل رہاتھا۔

سال2006مالیگاؤں کی تاریخ میں تبدیلی کا نکتے نظر بن گیا۔ ہندو دہشت گردوں کی منصوبہ کے تحت انجام دئے گئے سلسلہ وار بم دھماکوں سے دھل گئے مالیگاؤں کو یہ خبر سن کر ان کے اپنے ہی نوجوانو ں نے سیول سرویس امتحانات میں کامیابی حاصل کی ہے ایک نئی جا ن پیدا ہوگئی۔

قیصر عبدالحق کی کامیابی قدوس سر کے اس دل او ر دماغ میں دھیمی ہوتی اس روشنی میں نئی لو جاگادی۔اس کے بعد انہوں نے فیصلہ کیاتھا کہ وہ سیول سروس امیدوار کے لئے کونسلنگ او رکوچنگ کلاسس اپنے ایک چھوٹے روم میں شرو ع کریں گے جس کو بعد میں جماعت العلماء کی نیا پورہ کی عمارت میں منتقل کردیاگیا۔

وہ چاہتے تھے فریدینہ عدیل ‘ حماد ظفر او رشکیل انصاری ان کا سنٹرکادورہ کریں میں نے انہیں مشورہ دیاکہ ’’ تم کیو ں نہیں ہماری ہر گھرایک سیول سروینٹ‘‘ مہم سے جڑ جاتے ۔

انہوں نے کچھ نہیں کہا مگر ہچکچاہٹ محسوس کرتے دیکھائے دے رہے تھے ۔

بعد میں پتہ چلا کہ وہ مفتی اسمعیل کے لئے مامور تھے ۔ مفتی اسمعیل ایک سیاست داں اور سابق رکن اسمبلی جو کوسیول سرویس امیدواروں کے لئے کوچنگ سنٹر کھولنا چاہتے تھے او روہ چاہتے تھے کے قدوس سر اس کوچلائیں۔

قدو س سر پانچ سالوں تک سنٹر چلایا‘ انتھک محنت کے ذریعہ مقامی نوجوانو ں کو سیول سروس امتحانات کے لئے تیار کیا‘ انہیں اپنے آخری امتحان کی کوئی پروان نہیں تھے جس کی تاریخ بھی مقرر ہوگئی تھی۔

اس کی شروعات پچھلے رمضان سے دیکھا ئی دینے لگی جب انہیں غیرمتوقع اور خاندان میں کسی کو بھی وہ بیماری نہیں تھی پیٹ کا کینسر کے مرض میں مبتلا ہوئے کا انکشاف ہوا ۔ مگر بیماری ان کے سیول سرویس امتحانات کے جنون کوکم نہیں کرسکی

۔الطاف ماما نے یاد کرتے ہوئے کہاکہ ’’ سرجری کے بعد وہ ائے دن کیموتھرپی کے لئے ناسک جاتے تھے۔

اپنے اس سفر کے دوران ان کی یہ عادت بن گئی تھی کہ وہ ایک یادو بک سنٹرس پر رکتے اور اپنے سنٹر کے کتابیں خریدتے‘‘۔

تاہم مالیگاؤں اور ناسک میں ایک سال کے کے علاج کے بعد جمعہ 22جون2018کو قدوس سر اس دنیافانی الوداع کہہ دیا۔ جمیل شفیق نے کہاکہ’’ یوپی ایس سی یا ایم پی ایس سی امتحانات میں کامیابی کے لئے اب تک ان کے طلبہ میں کوئی اہل نہیں ہوا ہے‘ مگر قدوس سر نے اپنے پیچھے اس ٹیم کو چھوڑا ہے جو ان کے نامکمل مشن کو پورا کرنے کی قابلیت ضرور رکھتی ہے‘‘