نئی دہلی۔ اگلے سال جنوری میں عائد امتناع کی برخواستگی کے پیش نظر مرکزنے ریاستوں کو مکتوب لکھ کر سیمی کی سرگرمیوں کے متعلق جانکاری مانگی ہے۔
ریاستوں سے بات چیت کے دوران مرکزی ہوم منسٹری نے کہاکہ اسٹوڈنٹ اسلامک مومنٹ آف انڈیا( سیمی) پر یو اے پی اے کے تحت 31جنوری 2019تک امتناع عائد کیا گیا ہے‘ مگر مذکورہ تنظیم کے متعلق مرکزی حکومت کو غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی جانکاری ملے گی تو نئے تحدیدات کے ساتھ امتناع میں اضافہ بھی کیاجاسکتا ہے۔
ہوم منسٹری کے جوائنٹ سکریٹری ایس سی ایل داس کے جاری کردہ لیٹر میں لکھا ہے کہ ’’ریاستی حکومت کو ممنوعہ تنظیم کے غیرسماجی سرگرمیوں جس سے ملک کو ہم آہنگی ‘ داخلی سکیورٹی اور سکیولرازم کو خطرہ پیش آتا ہے تو ‘ یکم فبروری 2014سے قبل جس طرح کی کار وائی تنظیم کے خلاف انجام دی گئی تھی اس کو برقرار رکھا جائے گا‘‘۔
ہوم منسٹری نے کہاکہ سیمی کی سرگرمیوں پر نظر ضروری ہے اور اگر وہ رکنیت سازی کے کام کو جاری رکھتے ہیں تو پھر غیر قانونی سرگرمیوں کے زمرے میں وہ شامل ہوجائیں گے۔ قانون کی خلاف وزری کے حوالے سے ان پر دوبارہ مقدمہ درج کیاجائے گا‘‘۔
دہشت گرد تنظیم قراردیتے ہوئے 2001میں پہلی مرتبہ مذکورہ تنظیم کو غیر قانونی کہاگیاتھا۔ انہی قوانین کے تحت اس کو ممنوعہ قراردیا گیا۔ آخری مرتبہ یکم فبروری2014کو مذکورہ تنظیم پر یو اے پی اے کے تحت امتناع عائد کیاگیا تھا جو پانچ سال کی مدت کے لئے تھا۔
ایک ٹربیونل 2014جولائی 30کو امتناع کی تصدیق بھی کی تھی۔ریاست اترپردیش کے علی گرھ میں 25اپریل1977کو سیمی کا قیام عمل میں آیاتھا ‘ او رمذکورہ تنظیم پر الزام تھا کہ وہ ملک کو اسلامی مملکت میں تبدیل کرتے ہوئے ہندوستانی کی آزادی کے ایجنڈہ کے لئے کام کررہی تھی۔
سال2006میں ممبئی کی شہری متعدد ٹرین میں مبینہ طور پر بم رکھنے کا بھی سیمی پر الزام ہے جس میں187لوگ مارے گئے ہیں اور 700کے قریب زخمی ہوئے۔ مذکورہ تنظیم کو 2008میں گجرات میں بم دھماکہ کرنے کا بھی الزام ہے جس میں 45لوگ مارے گئے تھے