یکم ڈسمبر 2014کی صبح کو 48سال کے جسٹس برج گوپال ہرکشن لویا سی بی ائی ممبئی کی خصوصی عدالت کی صدارت کرنے والے جج کے گھر والوں اطلاع دی گئی ہے کہ لویا کا ناگپور میں انتقال ہوگیا جہاں پر وہ اپنے ساتھی جج کی بیٹی کی شادی میں شرکت کے لئے گئے ہوئے تھے۔ لویا ملک کے سب سے ہائی پروفائل کیس کی سنوائی کرنے والوں میں شامل تھے جو مبینہ طور پر سہراب الدین شیخ کے2005میں ہوئی فرضی انکاونٹرپر مشتمل تھی۔ اس کیس کے اصل ملزم امیت شاہ تھے جو اس وقت گجرات کے منسٹر تھے جب سہراب الدین کا قتل ہوا تھا اور لویا کی موت کے وقت وہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی قومی صدرتھے۔ میڈیا کی خبر ہے کہ جج کی موت قلب پر حملے سے ہوئی تھی۔لویا کے گھر والوں نے ان کی موت ک وقت میڈیا سے بات نہیں کی ۔
مگر نومبر2016میں لویا کے بھتیجی نوپور بالا پرساد بیانی مجھ سے رجوع ہوئی جب میں پونے گیا ہوا تھا یہ کہنے کہ انہیں ان کے چچا کی موت کے اردگرد گھومتے غیر متوقع حالات سے تشویش ہورہی ہے۔ جس کے بعد میری ان سے 2016اور نومبر2017کے درمیان میں بہت ساری ملاقتیں اور باتیں بھی ہوئی‘ میں نے ان کی والدہ انورادھا بیانی سے بھی بات کی جو لویا کی بہن اور سرکاری اسپتال میں میڈیکل ڈاکٹر کی خدمات بھی انجام دے رہی ہیں‘ لویا کی دوسری بہن سریتا مندھانے اور لویا کے والد ہرکشن۔میں نے حکومت کے ملازمین جو ناگپور میں ان چیزوں کے عینی شاہدہیں جج کی موت کے بعد ان کی نعش اور پوسٹ مارٹم کے عینی شاہد بھی ہیں۔اس کے بعد لویا کی موت کے متعلق تشویش پیدا کردینے والے سوالات میرے اندر پیدا ہونے لگے۔
سوالات موت کے متعلق متضاد خبریں‘ موت کے بعد اپنایاگیا طریقے کاراورگھر والوں کو نعش حوالے کرتے وقت جج کے مردہ جسم کی حالت ۔حالانکہ گھر والوں نے لویا کی موت پر تحقیقاتی کے لئے کمیشن آف انکوئری قائم کرنے کا مطالبہ کیاہے مگر اس پر کوئی عمل ندارد ہے۔نومبر30سال2014کے روز دن میں 11بجے قریب لویا نے ناگپور سے اپنی بیوی شرمیلا کو بذریعہ موبائیل فون کال کیا۔ چالیس منٹ کے قریب بات چیت ہوئی اور انہوں نے دن بھر کے مصروف ترین شیڈول کا تذکرہ کیا۔ لویا ناگپور میں اپنے ساتھی جج کی بیٹی سپنا جوشی کی شادی میں گئی ہوئے تھے۔ ابتداء میں تو وہ شادی میں جانے کے لئے تیار نہیں تھے مگر دوساتھی ججوں کے کافی اسرار پر شادی میں شرکت کے لئے وہ رضامند ہوئے تھے۔
لویا نے اپنے بیوی کو بتایاکہ انہوں نے شادی میں شرکت کی بعد ازاں عاشیہ میں بھی شامل ہوئے۔انہوں نے اپنے بیٹے انوج کے متعلق بھی جانکاری لی۔انہوں نے بتایا کہ وہ وی ائی پیز کیلئے بنائے گئے حکومت کے سرکاری گیسٹ ہاوز جو ناگپور کے سیول لائنس میں ہے ‘اس میں ناگپور کے لئے ان کے ساتھ ساتھی ججوں کے ساتھ ٹہرے ہوئے ہیں۔لویا کا وہ آخری فون کال تھا اور آخری بات چیت جو انہوں نے کی تھی ۔ اگلے دن صبح ان کے گھروالوں کو لویا کی موت کی خبر موصول ہوئی۔نومبر2016میں لاتور شہر کے قریب میں واقعہ گیٹ گاؤں میں پہلی بار ملاقات میں جج کے والد ہری کشن لویا نے کہاکہ ’’ اس کی بیوی ممبئی میں تھی اور میں لاتو ر شہر میں اور میری بیٹیاں اورنگ آباد کے جل گاؤں ‘ دھولیہ میں تھے جب ہمیں یکم ڈسمبر 2014کی صبح کو فون کال موصول ہوا‘‘۔ انہیں بتایاگیا کہ برج کی پچھلی رات کو موت ہوگئی ‘پوسٹ مارٹم کردیاگیا ہے نعش ان کے آبائی گاؤں گیٹ گاؤں کو روانہ کی جاچکی ہے جوکہ ضلع لاتور میں ہے‘‘۔
انہوں نے کہاکہ ’’ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ کوئی جھٹکا آیا ہے اور میری زندگی ختم ہوگئی‘‘
گھروالوں کو کہاگیاتھا کہ لویا کی موت پر قلب پر حملے سے ہوا۔ہرکشن نے کہاکہ ’’ ہمیں بتایاگیا کہ اس کو سینے میں درد ہوا ‘ اور اس کو اسی وجہہ سے ڈانڈیا اسپتال جوکہ ناگپور کا ایک خانگی اسپتال ہے وہاں پر اٹور کشا کے ذریعہ لے جایاگیا ‘ جہاں پر انہیں کچھ دوائیاں دی گئی‘‘۔لویا کی بہن بیانی نے ڈانڈیا اسپتال کے متعلق خلاصہ کرتے ہوئے کہاکہ ’’ وہ ایک معمولی اسپتال ‘‘ ہے او ربتایا کہ ’’ انہیں جانکاری حاصل ہوئی کہ اسپتال میں موجود ای سی جی مشین غیر کارگرد تھی۔ بعدازاں ہرکشن نے کہاکہ لویا ’’ کو میڈی ٹرینا اسپتال منتقل کیاگیاتھا‘‘ جو کہ شہر کا دوسرا خانگی اسپتال ہے’’ جہاں پہنچنے پر لویا کو مردہ قراردیاگیا‘‘۔ان کی موت کے وقت سہراب الدین کیس ایک واحد مقدمہ تھا جس کی سنوائی لویا کررہے تھے اور جس پر باریکی سے ملک بھر میں نظر رکھی جارہی تھی۔
سال2012میں سپریم کور نے ہدایت دی تھی کہ گجرات کے باہر مہارشٹرا میں کیس کی سنوائی کرے’ سپریم کورٹ نے کہاکہ’’ ہماری ہدایت سنوائی کی سالمیت کو برقرار رکھنے کے لئے یہ ضروری سمجھا جارہا ہے کہ ریاست کے باہرسنوائی بہتر ہوگی‘‘۔سپریم کورٹ نے اس با ت کی بھی ہدایت دی تھی کہ سنوائی کی شروعات سے اختتام تک وہی جج رہیں گے مگراس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جج جے ٹی اتپاٹ کا سی بی ائی سے 2014کے وسط میں تبادلہ کردیاگیا اور ان کی جگہ لویا کو لایاگیاتھا۔جون6سال2014کو اتپاٹ نے سنوائی میں حاضر ہونے امیت شاہ کے انکار پر تعجب ظاہر کیاتھا۔جب امیت شاہ 20جون کا حاضر نہیں ہوسکے تو اتپاٹ نے 26جون کی تاریخ سنوائی کے لئے مقرر کردی تھی۔
اور25جون کو جج کا تبادلہ کردیاگیا۔لویا نے 31ڈسمبر2014کے روز شاہ کو چھوٹ کی اجازت دیتے ہوئے پوچھاتھاکہ ممبئی میں حاضر رہنے کے باوجود وہ سنوائی میں کیوں حاضر نہیں ہوسکتے۔انہوں نے اگلی تاریخ 15ڈسمبر مقرر کی تھی۔لویا کی موت یکم ڈسمبر کو ہوئی او رکچھ عام خبروں کے علاوہ ان کی موت کو کوئی خاص میڈیا کی توجہہ نہیں ملی۔
جبکہ انڈین ایکسپریس نے خبر دی کہ لویا کی موت ’’ قلب پر حملے کے سبب ہوئی ہے‘‘ ایسا کہاجارہا ہے مگر’باوثوق ذرائع کا کہنا ہے کہ لویا کافی صحت مند اور تندرست تھے‘‘۔سرسری طور پر میڈیا کی توجہہ ڈسمبر 3کے روز ہوئی جب پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس کے دوران ایوان کے باہر ترنمول کانگریس کے اراکین پارلیمنٹ نے لویا کی موت کے متعلق تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے احتجاجی دھرنا منظم کیا۔ اگلے دن سہراب الدین کے بھائی رباب الدین نے سی بی ائی کو لیٹر لکھاکر لویا کی موت پر صدمہ ظاہر کیا۔اراکین پارلیمنٹ کے احتجاجی دھرنے اور رباب الدین کے خط کا کوئی اثر نہیں ہوا اور کوئی لویا کی موت کے ارگردگھومتے حالات پر کوئی جانکاری باہر نہیں ائی۔
لویا کے گھر والوں سے متعدد مرتبہ ہوئی بات چیت کو یکجہ کرنے کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ لویا سہراب الدین کیس کی سنوائی کے دوران کس طرف گامزن تھے اور ان کی موت سے کیا ہونے والا تھا۔بیانی نے اس ڈائیری کے کچھ کاپیاں بھی مجھے دی جس میں وہ مسلسل لویا کی سنوائی کی صدارت سے لیکر موت تک کے حالات کو رقم کیاہے۔جس میں انہوں نے ظاہر کیا کہ کئی واقعات انہیں الجھن کا شکار بنارہے ہیں۔ میں نے لویا کی بیوی اور بیٹے سے بھی بات کرنے کی کوشش کی مگر انہوں نے انکار کردیا اور کہاکہ ان کی جان کو خطرہ ہے۔
بیانی جو دھولیہ کی رہنے والی ہیں نے بتایا کہ انہیں یکم ڈسمبر 2014کی صبح ایک فون کال موصول ہوا ‘ اور فون کرنے والے بتایا کہ وہ جج بارڈی ہیں وہ گیٹ گاؤ ں جارہے ہیں جو لاتور سے 30کیلومیٹر کے فاصلے پر ہے جہا ں پر لویا کی نعش روانہ کی گئی ہے۔اور اسی فون کرنے والے نے بیانی اور دیگر گھر والوں کو اطلاع دی کہ پوسٹ مارٹم ہوگیا ہے او ر لویا کی موت کی وجہہ قلب پر حملے بتایاگیا ہے۔عموما لویا کے والد گیٹ گاؤں میں ہی رہتے ہیں مگر اس وقت وہ لاتو ر گئے ہوئے تھے جہاں پر ان کی بیٹیوں کا مکان ہے ۔ انہیں بھی فون کال موصول ہوا کہ ان کے بیٹے کی نعش گیٹ گاؤں کی طرف روانہ ہوگئی ہے ۔ بیانی نے بتایا کہ’’ ایشوار بیہاتی جوکہ ایک آر ایس ایس کارکن نے اس نے والد کو اطلاع دی کہ گیٹ گاؤں آنے پر وہ نعش کے انتظامات کریگا‘‘۔۔ بیانی نے کہاکہ ’’ کسی کو نہیں معلوم کیوں ‘ کیسے اور کب اس کو معلوم ہوا کہ نرج لویا کی موت ہوگئی ہے‘‘۔
سریتا مندھانے جو لویا کی ایک اور بہن ہے اور وہ ایک ٹیوشن سنٹر اورنگ آباد میں چلاتے ہیں جو اس وقت لاتور میں ہی تھی کو بھی 5بجے کے قریب ایک فون کال موصول ہواکہ لویا کی موت ہوگئی ہے۔ انہوں نے کہاکہ ’’ اس نے کہا برج کی ناگپور میں موت ہوگئی ہے اور ہمیں ناگپور آنے کو کہا‘‘۔ انہوں نے بتایا کہ جہاں پر پہلے وہ شریک تھی اس اسپتال سے اپنے بھانجے کو لیکر جانے کے لئے پہنچی اور جیسے ہی وہ اسپتال سے نکل رہے تھے وہاں پر ایشور بیہاتی آگیا۔ میں اب تک سمجھ نہیں پارہی ہوں کہ وہ کس طرح وہاں پر آیا کیسے اس کو پتہ چلاکہ ہم لوگ ساردا اسپتال میں ہیں‘‘۔مندھانے کے مطابق بہتی نے کہاکہ اس نے ناگپور میں رات بھر لوگوں سے بات کی اور میں نے انہیں اسرار کیا کہ ناگپور آنے کا کوئی راستہ نہیں ہے لہذا نعش کو ایمبولنس میں ڈال کر گیٹ گاؤ ں بھیج دیں۔انہوں نے کہاکہ ’’ وہ ان کے گھر سے ان لوگوں پر نظر رکھے ہوئے تھااور کہاکہ وہ ہر چیز ہم آہنگی کے ساتھ پورا کرلے گا۔
وہ رات کا وقت تھا جب بیانی گیٹ گاؤں پہنچی ۔ دووسری بہنیں بھی وہیں آبائی گھر پر موجود تھی۔ رات 11:30بجے کے قریب بیانی گھر پہنچی اور اس وقت لویا کی نعش بھی گھر والوں کے حوالے کی گئی۔بیانی کی ڈائری میں درج باتوں کے مطابق گھر والے صدمے میں تھے کوئی ساتھی ناگپور سے سفر کے دوران نعش کیساتھ موجود نہیں تھا۔صرف ایمبولنس کا ڈرائیور تنہا نعش لے کر آیا۔ بیانی نے کہاکہ ’’ یہ چونکا دینے والا‘‘ ہے۔ ناگپور کی شادی میں چلنے کے لئے اسرار کرنے والے وہ دونو ں جج بھی ساتھ میں نہیں تھے۔ مسٹر بارڈے جنھوں نے گھر والوں کولویا کی موت او رپوسٹ مارٹم کے متعلق جانکاری دی وہ بھی نعش کے ساتھ نہیں ائے۔ یہ سوالات میرا تعقب کررہے ہیں۔کیو ں کوئی بھی ساتھ نہیں تھا؟‘‘۔ ڈائیری میں درجہ باتوں میں سے ایک میں لکھا تھا کہ ’’ وہ ایک سی بی ائی کورٹ کے جج تھے‘ انہیں تحفظ اور وہ کسی کے ساتھ رہنے کے حقدار تھے‘‘۔بیانی نے مجھ سے کہاکہ’’ لویا کی بیوی شرمیلا اور ان کی بیٹی اپوروا اور بیٹا انوج ممبئی سے گیٹ گاؤں کچھ ججوں کے ساتھ سفر کرتے ہوئے ائے۔
جس میں سے ایک نے انوج کو باربار کہہ رہاتھا کہ کسی سے بات نہیں کرنا۔ انوج یقیناًصدمے اور خوف میں تا مگر اس نے اپنی ماں کی حمایت میں خاموشی کو برقرار رکھا‘‘۔بیان نے دیا کرتے ہوئے کہاکہ جب انہوں نے نعش دیکھی تو انہیں کچھ عجیب محسوس ہوا ۔ انہوں نے کہاکہ ’’ وہاں پر گردن کے پاس اور شرٹ کے پیچھے کچھ خون کے دھبے تھے۔ انہوں نے مزیدکہاکہ ماندھانے نے مجھ سے کہاتھا کہ’’ چشمے ان کی گلے کے نیچے اگئے تھے ’’ لویا کے چشمے ’’ ان کے جسم کے نیچے دب گئے تھے‘‘۔بیانی کی ڈائیر ی کے اقتباسات کے مطابق ’’ ان کے کالر پر خون تھا۔ بیالٹ بھی مخالف سمت چلاگیاتھا پینٹ کا کلب بھی ٹوٹا ہوا تھا۔ یہاں تک کہ میرے چچا کو بھی حالت مشتبہ لگی‘‘۔ ہرکشن نے مجھے بتایا کہ’’ وہاں کپڑوں پر خون کے دھبے تھے۔ ماندھانے بھی بتایا کے گردن پر خون کے دھبے او ر سرپر چوٹ کے نشان تھے۔شرٹ پر سیدھے آستین سے لیکر کمر تک خون کے دھبے تھے۔
مگر گورنمنٹ میڈیکل کالج اسپتال ناگپور کی جاری کردہ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق ’’ کپڑوں کی حالت گیلی تھی جس پر خون او رقہہ کے دھبے تھے‘’ ایک ہاتھ سے لکھی تحریر میں سادگی سے ’’سوکھا‘‘ لکھاہواتھا۔ بیانی نے نعش کو مشتبہ حالت میں دیکھا کیونکہ وہ ایک ڈاکٹر ہے اور ان کے مطابق ’’ میں جانتی ہوں اگر قلب اور پھیپھڑے کام نہیں کررہے ہیں تو پوسٹ مارٹم میں خون نہیں نکلتا۔ انہوں نے کہاکہ دو بارہ پوسٹ مارٹم کا انہوں نے مطالبہ کیامگر دوست او روہاں پر موجود لوگوں نے مسلئے کو پیچیدہ بنانے سے گریز کرنے کے لئے اس بات سے انکا ر کردیا‘‘۔ ہری کشن نے کہاکہ گھر والے ڈرمے اور الجھن میں تھے مگر انہیں لویا کے آخری رسومات کے لئے دباؤ ڈالا گیا۔قانونی ماہرین کا مشورہ ہے کہ اگر لویا کی موت پر شک وشبہ پیدا ہورہا ہے تو ۔ حقیقت میں پوسٹ مارٹم کی تجویز کا حکم دیا جاسکتا ہے ۔ ایک پنچ نامہ تیار کیاجانا چاہئے اور طبی قانونی مقدمہ درج کیاجاسکتا ہے۔
پونے نژاد وکیل عاصم سروڈی نے مجھ سے کہاکہ ’’ قانونی طریقے سے ‘ محکمہ پولیس کو چاہئے تھاکہ وہ تمام متوقع چیزیں یکجہ کرکے متوفی کی تمام چیزوں کو کومہر بند کردیتے ۔بیانی نے کہاکہ گھر والوں کو پنچ نامہ کی کوئی کاپی نہیں دی گئی۔ لویا کا موبائیل فون گھر والوں کو واپس کردیاگیامگر بیانی نے کہاکہ بیہاتی نے فون واپس کیا اور پولیس نے نہیں۔انہوں نے کہاکہ ’’ تیسری یا چوتھے روز ہمیں موبائیل فون دیاگیا۔ فون میں سے تمام جانکاری کو صاف کردیاگیاتھا اس نیوز سے دو تین دن قبل ایک پیغام آیاتھا سر ان لوگوں سے بچ کر رہیں او روہ ایس ایم ایس فون میں تھا باقی تمام چیزیں مٹادی گئی تھیں۔بیانی کے پاس لویا کی موت کی رات سے لیکر صبح تک کے متعلق بہت سارے سوالات ہیں۔ جس میں سے لویا کو اٹو رکشا میں اسپتال کیوں اور کیسے لے کر گئے ‘ وہیں پر اٹو اسٹانڈ روی بھون سے دو کیلومیٹر کے فاصلے پر ہے ۔ اور دن میں بھی لوگ روی بھون سے اٹو رکشا کی سواری نہیں کرتے۔
بیانی کا کہنا ہے کے ان کے ساتھ رہنے والے شخص کس طرح آدھی رات کو اٹور کشا کا انتظام کرلیا؟‘‘۔دوسرا سوال جس کا اب تک جواب نہیں ملا کہ ۔ کیوں لویا کے گھر والوں کو اسپتال لے جانے کی اطلاع نہیں دی گئی؟انتقال کے فوری بعد گھر والوں کو خبر کیوں نہیں دی گئی؟کیوں پوسٹ مارٹم کے لئے منظوری حاصل نہیں کی گئی ؟ کس نے پوسٹ مارٹم کی سفارش کی اور کیوں؟ایسا کیاشبہ تھا جس کے سبب پوسٹ مارٹم کرانے کی ضرورت پڑے ؟دانتے اسپتال میں لویا کو کیا دواء دی گئی تھی؟کیاروی بھون میں جہاں پر وی ائی پیز جس میں منسٹرس‘ ائی پی ایس‘ ائی اے ایس افیسرس شامل ہیں مسلسل آنا جانا رہتا ہے کیا وہاں پر کوئی گاڑی موجود نہیں تھی تاکہ لویا کو اسپتال لے جایاجاسکے؟۔ ناگپور میں مہارشٹرا اسمبلی کو سرمائی اجلاس 7ڈسمبر سے شروع ہونے والا تھا او رمذکورہ اجلاس کی تیاری کے لئے سینکڑوں کی تعداد میں عہدیدار شہر میں موجودتھے ۔ روی بھون میں 30نومبر سے یکم ڈسمبر تک اور کون وی ائی پیز کا قیام تھا؟‘‘سروڈا کے وکیل نے کہاکہ یہ تمام اہمیت کے حامل سوالات ہیں۔’’ دانتے اسپتال کے طبی انتظامیہ کی رپورٹ گھر والوں کو کیوں نہیں دی گئی؟۔ کیا ان سوالوں کے جوابات کسی کے لئے مشکلات کھڑی کرسکتے ہیں؟‘‘۔بیانی نے کہاکہ ’’ یہ سوالات گھر والوں‘ دوست احباب اور رشتہ داروں کے دماغ میں اب بھی الجھن پیدا کررہے ہیں‘‘۔
انہوں نے کہاکہ ہماری الجھن میں اس وقت اضافہ ہوگیا جب لویا کے ساتھ ناگپور کا سفر کرنے کا اسرار کرنے والے ججوں نے ’’ ایک اور دیڑھ ماہ کا عرصہ گذر جانے ‘‘ تک بھی لویا کے گھر والوں سے آکر ملاقات نہیں کی ۔ یہ اس وقت ہی ہوا جب گھر والوں کو سنائی دیا کہ لویا کے آخری لمحات میں وہ ان کے ساتھ تھے۔ بیانی کے مطابق دولوگوں نے گھر والوں کو بتایا کہ لویا نے تقریبا12:30کے قریب سینے میں درد کی شکایت کی ‘ اور یہ کہ اس کے بعد انہیں اٹورکشا میں اسپتال لے جایا گیا‘ اور پھر اس کے بعد ’’ وہ خود سیڑھوں سے چڑھ کر گئے جہاں پر انہیں کچھ دوائیں دی گئی۔
انہیں میڈی ٹرینہ اسپتال لے جایاگیا جہاں پر پہنچتے ہیں انہیں مردہ قراردیدیا‘‘۔ اس کے بعد بھی کئی سوالوں کا جواب ضروری ہے۔ بیانی نے کہاکہ ’’ ہم نے داندے اسپتاک سے علاج کی تفصیلات حاصل کرنے کی کوشش کی مگر مذکورہ ڈاکٹرس اور عملہ نے صاف طور پر تفصیلات بتانے سے انکار کردیا‘‘۔ میں نے لویا کی پوسٹ مارٹم رپورٹ ناگپور کے سرکاری میڈیکل کالج سے حاصل کی۔ ان دستاویزات سے ہی بہت سارے سوالات پیداکررہے ہیں۔والد نے کہاکہ ہر صفحہ کو ناگپور کے صدر پولیس اسٹیشن کے سینئر پولیس انسپکٹر نے دستخط کی اور کسی نے متوفی کا رشتہ کا بھائی کی حیثیت سے دستخط کی ۔
دستخط کرنے والے اسی شخص نے پوسٹ مارٹم کے بعد نعش حاصل کی ہوگی۔لویا کے والد نے کہاکہ ’’ میرے کوئی رشتہ کا بھائی ناگپور میں نہیں ہے۔کس نے دستخط کی وہ ایک بڑا سوال ہے‘‘۔ مزید رپورٹ میں کہاجارہا ہے کہ نعش کو میڈی ٹرینہ اسپتال سے ناگپور کے سرکاری اسپتال کو ستیا بردی پولیس اسٹیشن ناگپور کی نگرانی میں روانہ کیاگیااور لے والے کانسٹبل کا نام پنکج ہے جس کا تعلق سیتا بردی پولیس اسٹیشن سے ہی ہے اور بیاج نمبر6238ہے۔قابل غور بات ہے کہ نعش 10:50کے وقت یکم ڈسمبر2014کو لائی گئی ‘ پوسٹ مارٹم 10:55کوشروع ہوگیا اور 11:55کو کاروائی ختم ہوگئی۔پولیس کے مطابق رپورٹ میںیہ بھی قابل غور ہے کہ لویا ’’ 1ڈسمبر 2014کے روز0400اے ایم کے وقت سینے میں درد کی شکایت کے بعد0615گھنٹوں پر فوت ہوگئے۔ انہیں پہلے داندے اسپتال لے جایاگیا پھر میڈی ٹرینہ اسپتال منتقل کیاگیا جہاں پر انہیں مردہ قراردیا گیا‘‘۔ غور کیجئے کہاکہ خبروں کے مطابق لویا کی موت 6:15اے ایم کا وقت ہے لویا کے گھر والو ں کے مطابق 5اے ایم سے ان لوگوں کو فون کال آنا شروع ہوگئے۔
میری تحقیقات میں مزید یہ بات سامنے ائی ہے ‘ ناگپور کے میڈیکل کالج اور سیتا بردی پولیس اسٹیشن کے دو ذرائع نے مجھے بتایا کہ انہیں نصف رات کو لویاکی موت کی اطلاع دی گئی اور انہوں نے رات کے دوران ہی نعش کو دیکھا۔ذرائع نے بتایا کہ نصف شب کے بعد فوری طور سے پوسٹ مارٹم انجام دیا گیا۔ گھر والوں کو موصول فون کالس کے علاوہ ‘ ذرائع نے پوسٹ مارٹم کی رپورٹ میں موت کا وقت6:15کا دعوی پیش کرنے پر سوال کھڑا کیا۔
میڈیکل کالج کے ذرائع جس نے پوسٹ مارٹم کے وقت وہا ں پر موجودتھا نے مجھ سے کہاکہ وہ جانتا ہے کہ اس وقت اعلی عہدیداروں کی جانب سے ہدایت دی گئی تھی کہ ’’ پوسٹ مارٹم کے طرز پر کاٹ کر دوبارہ ٹانکے لگادئے جائیں‘‘۔ رپورٹ میں ’’ کرونری ارٹیری انسوفیسینسی‘‘ شامل کیاگیا ہے جس موت کی اصل وجہہ ہے۔ ممبئی کے مشہور ماہر قلب ہسمکھ راوت کے مطابق’’ اس طرح کا قلب پر حملہ عمومامعمر لوگوں‘ خاندانی امراض کا شکار افراد‘ سگریٹ نوشی کرنے والے‘ ہائی کولسٹرول‘ ہائی بلڈ پریشر ‘ موٹا پا‘شوگرکے امراض کا شکار افراد پر ہوتا ہے‘‘۔بیانی نے اس طرف اشارہ کرتے ہوئے ان کے بھائی ان میں سے کوئی شکایت نہیں تھی۔
انہوں نے کہاکہ ’’ برج 48سال کے تھے۔ میرے والدین 85اور80کے ہیں اور صحت مند ہیں اور قلب سے متعلق کوئی مرض انہیں نہیں ہے۔انہوں نے کبھی شراب نوشی نہیں ہی ۔ کئی سالوں سے دوگھنٹوں تک وہ ٹینس کھیلتے تھے‘ نہ شوگر ہی تھی او رنہ ہی بلڈ پریشر تھا‘‘۔ بیانی نے کہاکہ عہدیداروں کی جانب سے دی گئی میڈیا رپورٹ پر یقین نہیں ہورہا ہے۔ انہوں نے کہاکہ ’’ میں ایک ڈاکٹر ہوں اور برج معمولی بدہضمی اور کھانسی پر بھی مجھ سے رابطہ کرتے تھے۔ انہیں کوئی کارڈیک شکایت نہیں تھی او رنہ ہی گھر کے کسی فرد کو ہے‘‘