سہارنپور۔ مسلم علاقوں میں پاکستان کے خلاف نعرے بازی کی روایت کو فیس بک پر بریلی کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی جانب سے مذمت کئے جانے کے بعد پیدا شدہ قومی تنازع ابھی ختم نہیں ہوا کہ اترپردیش کی ایک اور اعلی عہدیدار نے کاس گنج تشدد کے متعلق متنازع بیان دیتے ہوئے نئی تنازع کو ہوا دی ہے۔
سہارنپور میں ڈپٹی ڈائرکٹر کے عہدے پر فائز رشمی ورون نے لکھا کہ’’ لہذا کاس گنج میں ترنگا یاترا تھی۔ اس میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔
اسی روز امبیڈکر کی تقریب بھی ہے‘ اسی طرح کی ایک ریالی سہارنپور ڈوڈلی روڈ سے بھی نکالی گئی۔ ریالی سے امبیڈکر غائب تھے‘ مجھے کہنا ہے کہ زعفرانی رنگ میں وہ کہیں گم ہوگئے۔ کاس گنج میں یہ کیا ہورہا ہے۔ ترنگا غائب ہوگیا‘ زعفرانی جھنڈا اونچا کردیاگیا۔ مذکورہ متوفی( چندن گپتا) کو کسی دوسرے طبقے نے نہیں مارا ہے۔ اس کو انہیں زعفرانی جھنڈوں نے مارا ہے جس ریالی میں شامل لوگوں نے تھامہ تھا۔ ترنگا صرف دیکھاوا تھا‘‘۔
ورون نے مزید لکھتے ہوئے کہاکہ ’’ ان لوگوں ( ہندو) نے دوسرے طبقے کے لوگوں کو ترنگا یاترا میں شامل ہونے کے لئے اصرار کیا اور قومی پرچم لہرانے کے علاوہ شہید عبدالحمید کے فوٹو سے روکا۔ آخر کار سرخ رنگ( خون) زعفرانی رنگ وہیں سفید اور ہرے رنگ پر حاوی ہوگیا‘‘۔
مذکورہ افسر کا پوسٹ اس نیوز کا حوالہ تھا جس میں مسلمانوں کیپٹن عبدالحمید چوراہے پر یوم جمہوریہ کے پیش نظر قومی پرچم لہرانے کے لئے جمع ہوئے تھے جب ہندؤوں کا ایک گروپ وہاں پر پہنچا‘ سڑک پر رکھی ہوئی کرسیوں کو پھینکاشروع کردیا‘ رنگولی کو تباہ کردیا جو عموما قومی پرچم کے ڈانڈے کے اطراف واکناف میں لگائی جاتی ہے ۔کیپٹن عبدالحمید1965میں جنگ میں پاکستان کی کئی ٹینکس کو تباہ کرتے ہوئے شہید ہوگئے تھے۔
انہیں فوج کے سب سے باوقار اعزاز پرمویر چکر سے نوازا گیاتھا۔بعدازاں ورون نے کہاکہ جو چیز انہیں درست محسوس ہوئی اس کو تحریر کیا اور مزید کہاکہ انہیں اپنے پوسٹ میں کوئی برائی نہیں محسوس ہوئی۔
بریلی کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ راگھویندرا وکرم سنگھ نے بھی ہندوتوا گینگ کی مسلم علاقوں میں جان بوجھ کر ریالی نکالنے اور مخالف پاکستان نعرے لگانے کی مذمت کی تھی۔بعدازاں انہیں اپنے سوشیل میڈیا پوسٹ کو ہٹانے اور اس پر وضاحت کے بھی اترپردیش حکومت کی جانب سے ہدایت دی گئی تھی۔
You must be logged in to post a comment.