اپنے متنازعات بیانات اور ٹوئٹ سے سرخیوں میں رہنے والے گجرات کے سابق ائی پی ایس افیسر سنجیو بھٹ پھر ایک مرتبہ اپنے ٹوئٹ کی وجہہ سے سرخیوں میں ہیں۔
وزیراعظم نریند رمودی اور بی جے پی صدر امیت شاہ کی کٹر مخالف سمجھے جانے والے سنجیوبھٹ نے اپنے تازہ ٹوئٹ میں لکھا ہے کہ’’ بی جے پی کے ہی باوثوق ذرائع سے یہ جانکاری حاصل ہوئی ہے کہ نریندر مودی او رامیت شاہ نے جے ڈی ایس‘ ایم ائی ایم‘ اے اے پی‘ بی ایس پی‘ ایم ای پی پر بڑی سرمایہ کاری کی ہے اور 1000سے زائد آزاد امیدواروں کو بھی میدان میں اتار ا ہے تاکہ کرناٹک میں سکیولر ووٹوں کو منقسم کیاجاسکے‘‘۔
According to deep sources within the BJP, Narendra Modi and Amit Shah are banking heavily on their investment in the JDS, MIM, AAP, BSP, MEP and the 1000+ Independent Candidates to split the secular vote in Karnataka.
— Sanjiv Bhatt (IPS) (@sanjivbhatt) May 11, 2018
سنجیو بھٹ کا یہ ٹوئٹ ایک ایسے وقت سامنے آیاجب 12مئی کے روز کرناٹک میں اسمبلی الیکشن کے لئے رائے دہی مقرر تھی۔ کرناٹک میں اقتدار حاصل کرنے کے لئے بھی بی جے پی نے اپنی پوری سیاسی طاقت جھونک دی ہے۔
وزیراعظم نریندر مودی نے ریاست بھر میں21ریالیاں کی جبکہ اترپردیش کے چیف منسٹر یوگی ادتیہ ناتھ نے بھی کرناٹک میں کئی دورے کرتے ہوئے پارٹی کی انتخابی مہم میں حصہ لے کر بی جے پی کے لئے ووٹ مانگے۔
مرکزی کابینہ کے کئی وزراء اور بھگوا پارٹی کے مرکزی قائدین نے بھی پارٹی کی انتخابی مہم میں حصہ لیا۔اس کے برخلاف کانگریس پارٹی کے قومی صدر راہول گاندھی نے بھی پارٹی کی دوبارہ کامیابی کے لئے کوئی کسر باقی نہیں رکھی ہے۔
ریاست کے کونے کونے میں جاکر راہول گاندھی نے پارٹی کے امیدواروں کی کامیابی کے لئے انتخابی مہم چلائی۔وہیں مجلس اتحاد المسلمین جس نے الیکشن میں اپنا امیدوار نہیں ٹہرایا تھا مگر جنتا دل ( سکیولر) کے امیدواروں کے لئے مہم چلائی ۔
اے ایم ائی ایم کے صدر ورکن پارلیمنٹ حیدرآباد نے جے ڈی ایس کے تائید میں انتخابی جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے بی جے پی کو فرقہ پرست اور کانگریس کو اقلیتوں کی دشمن پارٹی قراردیتے ہوئے رائے دہندوں کی ذہن سازی کی کوشش کی ہے۔
عام آدمی پارٹی اور بی ایس پی نے بھی اپنے امیدواروں کو میدان میں اتارا تھا جبکہ دونوں سیاسی پارٹیوں کو ریاست کرناٹک میں موقف نہایت کمزور مانا جاتا ہے ۔ وہیں ایم ای پی نے بھی اپنے امیدواروں کو میدان میں اتار کر تمام امیدوارو ں کی جیت کے دعوے پیش کئے ہیں۔
انتخابی مہم کے دوران پیش آنے والے واقعات اور سنجیو بھٹ کے ٹوئٹ میں شامل سیاسی پارٹیوں کی ریاست کرناٹک میں سرگرمیوں کے پیش نظر عوام میں سنجیوبھٹ کی جانب سے لگائے گئے الزامات کی وجہہ سے تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ بی جے پی کی مبینہ سرمایہ کاری کس حد تک کامیا ب ہوتی ہے ۔ کرناٹک میں ووٹوں کی گنتی 15مئی کومقرر ہے۔