سچ لکھنے او ر بولنے والے صحافیوں کے لئے یہ خطرناک دور 

’دی وائر‘ کے فاؤنڈنگ ایڈیٹر نے کہا کہ
سپریم کورٹ کے ہتک عزت کی وضاحت پیش کیے جانے کے باوجود اس قانون کا بڑے کاروباری اداروں کی طرف سے سچائی اجاگر کرنے والے صحافیوں کے خلاف سرعام غلط استعمال کیا جا رہا ہے۔ وہ نیشنل ہیرالڈ کے سابق ایڈیٹر اِن چیف نیلابھ مشرا کی پہلی برسی کے موقع پر’رپورٹنگ انڈیا اِن ٹربلڈ ٹائمز‘ کے عنوان سے دہلی میں منعقدہ پینل ڈسکشن کے دوران اظہار خیال کر رہے تھے۔ پینل ڈسکشن میں نظامت کی ذمہ داری مصنف اور کالم نگار اپوروانند نے سنبھالی۔

سدھاردھ نے کہا، ’’گزشتہ سالوں میں ایڈیٹر گلڈ فعال رہی ہے اور اس نے این ڈی ٹی وی پر بین (2016 میں) اور صحافیوں پر حملوں کے معاملوں میں آواز بھی اٹھائی ہے لیکن کئی ایسے مواقع بھی آئے جب اس نے صاف طور پر کچھ بھی نہیں کہا۔‘‘

وردارجن نے حال ہی میں گوتم اڈانی اور انل امبانی جیسے صنعت کاروں کی طرف سے میڈیا اداروں اور صحافیوں کے خلاف ہتک عزت کے معاملات درج کرانے کے حوالہ سے کہا، ’’جب اس طرح کے کیسز شروع ہوتے ہیں تو میڈیا اداروں کے مالکان اور سرمایہ کار پوری طرح سے ساتھ نہیں نبھاتے، جوکہ مزید مشکلات پیدا کرتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اگر انل امبانی کیس فائل کرتے ہیں تو آپ اسٹوری ہی مت کرو، اڈانی کو مت چھیڑو اگر وہ مقدمہ درج کرتے ہیں۔‘‘

انہوں نے مزید کہا، ’’اس سب کے نتیجہ میں کئی معاملات پر رپورٹنگ کرنے والا ادارہ کئی معاملات میں الگ تھلگ ہو کر رہ جاتا ہے۔ اس کے بعد صحافیوں کی مشکلات بڑھتی ہی چلی جاتی ہیں۔‘‘ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ سچائی اجاگر کرنے والی آزاد اور جرأت مند صحافت اس وقت تک ممکن نہیں جب تک آزاد نظام عدل، یونیورسٹیوں کا بہتر نظام، سی اے جی اور آر ٹی آئی جیسے جمہوری آلات مضبوط نہیں ہوں گے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ پانچ سالوں میں بے تحاشہ کمائی کرنے کے حوالہ سے ’دی وایر‘ میں شائع کی گئی اسٹوری کی وجہ سے اس وقت بی جے پی کے صدر امت شاہ کے بیٹے جے شاہ کی طرف سے دائر کیے گئے ہتک عزت کے مقدمہ کا سامنا ہے۔ رافیل ڈیل کے حوالہ سے ایک آن لائن ویڈیو کے خلاف انل امبانی نے بھی 6 ہزار کروڑ روپے کے ہرجانہ کا مقدمہ دائر کر دیا ہے۔ گزشتہ سال گجرات کی عدالت نے ایک ہتک عزت معاملہ کو خارج کر دیا جو اڈانی گروپ کی طرف سے ایک مضمون شائع کرنے کے بعد دائر کیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ میرے ایک کلیگ کے خلاف اڈانی گروپ نے مقدمہ دائر کیا ہوا ہے جس کی وجہ سے انہیں گزشتہ دنوں میں تین سے چار مرتبہ گجرات کے بُھج جانا پڑا۔ دو دن قبل اڈانی گروپ نے میرے کلیگ ایم کے وینو کے خلاف بھی ایک ٹوئٹ کو لے کر مقدمہ درج کرا دیا ہے۔

وردراجن نے کہا کہ صحافی اور میڈیا کے وہ ادارے جو نظام کے خلاف ذرا بھی آواز اٹھاتے ہیں انہیں کئی طرح سے ڈرانے یا ٹرول کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور اس کام میں بڑے میڈیا ادارے بھی شامل ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ٹائمز ناؤ اور ریپبلک ٹی وی جیسے نیوز چینل تو وقت وقت پر باقاعدہ مسلم مخالف ایجنڈا چلا کر سیاسی پارٹیوں کو فائدہ پہنچاتے ہیں اور سیاسی جماعتوں کی آئی ٹی سیلز سوشل میڈیا کو ہتھیار بنا کر صحافیوں کو نشانہ بناتے ہیں۔‘‘

انہوں نے کہا کہ آج میڈیا انڈسٹری خود صحافت کی دشمن بن چکی ہے۔ کارواں میگزین نے حال ہی میں ایک رپورٹ کی تھی جس میں کہا گیا تھا سی آر پی ایف جوانوں کی ذات بھی بحث کا موضوع ہو سکتی ہے تو نیوز چینلوں نے میگزین اور صحافیوں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا اور انہیں اینٹی نیشنل قرار دے دیا۔

انہوں نے کہا کہ میڈیا ادارے آج گراؤنڈ رپورٹنگ کے بھی دشمن بن گئے ہیں، یہی وجہ ہے کہ آج ٹی وی چینلوں پر مشکل سے ہی کوئی گراؤنڈ رپورٹ نظر آتی ہے۔

اس دوران سوشل میڈیا کی مثبت چیزوں پر بات کرتے ہوئے وردراجن نے کہا، ’’ہمارا میڈیا ادارہ کوئی زیادہ بڑا نہیں ہے لیکن جے شاہ والی ہماری اسٹوری وائر ہوئی اور حکومت اسے کسی بھی طرح روکنے میں ناکام رہی۔‘‘ اس دوران انہوں نے حکومت کی طرف سے کشمیر کے اخبار گریٹر کشمیر اور کشمیر ٹائمز جیسے انگریزی روزناموں کے اشتہارات بند کرنے کا مسئلہ بھی اٹھایا۔

سدھارتھ وردراجن نے کہا کہ خواہ نریندر مودی حکومت کو اب دوسرا موقع نہیں مل پائے گا لیکن آنے والے کچھ سالوں میں میڈیا کا رویہ تبدیل ہوتا نظر نہیں آ رہا ہے۔

پینل ڈسکشن میں منوج متا، انومیہا یادو، مینا کوتوال اور بھاشا سنگھ بھی شامل تھیں۔