نئی دہلی : سپریم کورٹ نے کلکتہ ہائی کورٹ کے فیصلہ کو خارج کرتے ہوئے اپنے ایک اہم فیصلہ میں قومی اقلیتی کمیشن برائے ادارہ جات کو کسی بھی اقلیتی ادارہ کو اقلیتی کردار کا درجہ دینے کااہل قرار دیا ہے جس کا جسٹس اعجاز صدیقی نے خیر مقدم کیا ہے۔
اور امید ظاہرکی ہے کہ عدالت عظمی کے اس فیصلہ سے جامعہ ملیہ اسلامیہ سمیت دیگر اقلیتی اداروں کو بڑی راحت ملے گی۔پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس صدیقی نے کہا کہ موجودہ حکومت نہیں چاہتی کہ اقلیتوں سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی ادارہ مضبوط ہو۔
انہوں نے کہا کہ بطور چیر مین میں نے قومی اقلیتی کمیشن برائے تعلیمی ادارہ جات کی ۱۰؍ سال تک ذمہ داری سنبھالی او رجامعہ ملیہ اسلامیہ سمیت کئی یونیورسٹیوں ، کالجوں ،اسکولوں کو اقلیتی کردات درجہ دیا ۔
لیکن جب مرکز میں مودی کی حکومت آئی اور ۱۷؍ دسمبر ۲۰۱۴ء کو میری مدت کار ختم ہوئی تو آج تک اس ادارہ میں کوئی دوسرا چےئر مین نہیں بنایا گیا۔انھوں نے کہا کہ جب اس کی تقرر ی کا معاملہ عدالت پہنچا تو وہاں حکومت نے جواب دیا کہ ہم چیئر مین تلاش کر رہے ہیں ،لیکن کوئی مل نہیں رہا ۔جسٹس صدیقی نے کہا کہ دراصل جب کسی بھی ادارہ کو اقلیتی کردار کا درجہ ملتا ہے تو وہ بہت پاور فل ہوجاتا ہے اور اس کو بہت زیادہ اختیارات مل جاتے ہیں ۔
اس لئے کوئی بھی حکومت نہیں چاہتی کہ آسانی سے اقلیتی کردار کا درجہ ملے۔وہ خود اپنے فیصلے لے سکے گا اور حکومت اس میں مداخلت نہیں کرسکتی۔
انہوں نے کہا کہ دوسری آزاد ی یہ ہے کہ اقلیتی ادارہ صد فیصد اقلیتی بچوں کا داخلہ کرنے کا اہل ہے ۔انہوں نے کہا کہ میں جو یہ باتیں بتا رہا ہوں یہ سب سپریم کورٹ کے الگ الگ فیصلوں میں موجود ہیں۔