سپریم کورٹ کا ایودھیا مقدمہ ،وسیع تر بنچ کے سپرد کرنے سے اِنکار

تین رکنی بنچ کا اکثریتی فیصلہ ، ایک جج کا دو ججوں کی رائے سے اختلاف ، آر ایس ایس کا فیصلہ کا خیرمقدم

نئی دہلی۔ 27 ستمبر (سیاست ڈاٹ کام) سپریم کورٹ نے آج 1994ء کے مسجد کے بارے میں فیصلہ کو پانچ ججس پر مشتمل بنچ کے سپرد کرنے سے انکار کردیا۔ مقدمہ یہ تھا کہ کیا مسجد اسلام کا جزو لاینفک ہے یا نہیں۔ اکثریتی فیصلہ میں جو 2+1 تھا، سپریم کورٹ کی بنچ نے جس کی قیادت چیف جسٹس آف انڈیا دیپک مشرا کررہے تھے، کہا کہ دیوانی مقدمہ کا فیصلہ شہادتوں کی بنیاد پر کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ سابقہ فیصلہ اس مسئلہ پر کارگر نہیں ہے۔ سپریم کورٹ کی بنچ ایودھیا اراضی تنازعہ پر مفاد عامہ کی درخواستوں کی سماعت کررہی تھی۔ دیپک مشرا نے کہا کہ دیوانی مقدمہ کا فیصلہ بعدازاں بنچ کی جانب سے 29 اکتوبر کو کیا جائے گا۔ جسٹس اشوک بھوشن جنہوں نے فیصلہ کی اپنے اور چیف جسٹس آف انڈیا کی جانب سے خواندگی کی تھی، کہا کہ یہ پتہ چلانا ہے کہ پانچ ججس پر مشتمل بنچ نے 1994ء کا جو فیصلہ سنایا تھا، وہ تنازعہ کے مطابق ہے یا نہیں۔ جسٹس ایس عبدالنظیر نے دونوں ججوں کی رائے سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ مسجد اسلام کا اٹوٹ حصہ ہے یا نہیں، اس کا فیصلہ مذہبی عقائد کے پیش نظر کیا جانا چاہئے جس پر تفصیلی غور ہوچکا ہے۔ انہوں نے سپریم کورٹ کے حالیہ حکم نامہ کا حوالہ دیا جو نسوانی اعضاء تناسل کو مسخ کرنے کے بارے میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ مسئلہ کی ایک وسیع تر بنچ کی جانب سے سماعت ہونی چاہئے۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ اراضی کی ملکیت کا تنازعہ مقدمہ کی سماعت ایک نئی تشکیل شدہ تین ججس پر مشتمل بنچ کی جانب سے 29 اکتوبر کو کیا جائے گا، کیونکہ جسٹس مشرا 2 اکتوبر کو چیف جسٹس کے عہدہ سے سبکدوش ہورہے ہیں۔ یہ مسئلہ کہ مسجد اسلام کا اٹوٹ حصہ ہے یا نہیں، اس وقت اُبھر آیا تھا جبکہ مفاد عامہ کی درخواستوں کی سماعت جاری تھی۔ بنچ کی قیادت چیف جسٹس آف انڈیا مشرا کررہے تھے اور انہوں نے مفاد عامہ کی کئی درخواستوں کی ایک ساتھ سماعت کی تھی جس کا فیصلہ الہ آباد ہائیکورٹ نے 2010 ء میں سنایا تھا کہ رام جنم بھومی۔ بابری مسجد علاقہ کی اراضی کو تین حصوں میں تقسیم کیا جائے۔ ہائیکورٹ کی تین ججس پر مشتمل بنچ میں 2+1 اکثریتی فیصلہ میں حکم دیا تھا کہ 2.77 ایکڑ اراضی تین فریقین میں اسلامی وقف بورڈ، نرموہی اکھاڑہ اور رام للا میں مساوی طور پر تقسیم کی جائیں۔ جسٹس بھوشن نے کہا کہ قبل ازیں یہ انکشاف کہ مسجد اسلام کا اٹوٹ حصہ ہے، حصول اراضی کے تناظر میں کیا گیا تھا اور اسی حد تک محدود تھا۔ جسٹس نظیر نے کہا کہ 1994ء کے فیصلہ کے تاثرات قابل اعتراض ہے ۔ الہ آباد ہائیکورٹ کا اراضی تنازعہ مقدمہ میں فیصلہ بھی قابل اعتراض ہوگا۔ انہوں نے ہائیکورٹ کے جج ایس اے خان کے تاثرات کا بھی حوالہ دیا کہ مسجد اسلام کا اٹوٹ حصہ نہیں ہے۔ دریں اثناء آر ایس ایس نے سپریم کورٹ کے ایودھیا مقدمہ میں فیصلہ کا خیرمقدم کیا اور اعتماد ظاہر کیا کہ مقدمہ کا یہ فیصلہ شہادتوں کی بنیاد پر کیا جائے گا۔