سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ پر نظر ثانی نہیں کی تو ہندوستان کی تہذیب و ثقافت تباہ ہوجائے گی : ممتاز شخصیات کارد عمل 

ممبئی : غیر ازدواجی تعلقات سے وابستہ دفعہ 497سپریم کورٹ سے غیر آئینی قرار دئے جانے کا ایک فیصلہ سامنے آیا ۔ عدالت عظمیٰ نے یہ واضح کردیا کہ اگر کوئی شادی شدہ عورت اگر کسی غیر مرد سے جسمانی تعلقات قائم کرتی ہے تو وہ اب قانوناً جرم نہیں ۔یعنی اب غیر ازدواجی تعلقات قائم کرنے پر قانوناً سزا نہیں ملے گی ۔اس سے قبل مرد کو 497دفعہ کے تحت پانچ سال جیل کی سزا بھگتنی پڑتی تھی ۔

لیکن عدالت نے اس قانو ن کو ختم کرکے ایک نئے فتنہ کو جنم دیا ہے ۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلہ کے بعد کئی گوشوں سے سخت اعتراض کئے جارہے ہیں ۔ اور کچھ مسلم تنظیمیں اس معاملہ کولے کر عدالت میں نظر ثانی کروانے کا فیصلہ کیا ہے ۔ اس معاملہ میں گفتگو کرتے ہوئے ایڈوکیٹ مجید میمن نے کہا کہ یقیناًیہ فیصلہ ہمارے مہذب سماج کے خلاف ہے جسے کوئی بھی سمجھ دارشخص قبول نہیں کرسکتا ۔انہوں نے کہا کہ پچھلے 150سال سے دفعہ 497 کے تحت خواتین پر جو قانونی سختیاں تھیں اب اسے غیر آئینی قرار دئے جانے کے بعد ناجائز تعلقات کو فروغ ملے گا۔

سینئر ایڈوکیٹ ساہنی سالین نے کہا کہ یہ وفیصلہ لئے جانے سے قبل معاشرہ کے لوگوں سے رائے لی جانی چاہئے تھی ۔ ڈاکٹر خلیل نے کہا کہ اخلاقی اور سماجی نقطے نظر سے یہ فیصلہ قطعی غلط ہے ۔ انہوں نے سینئر وکلاء ، مختلف تنظیموں کے ذمہ دارن اور این جی اوز سے درخواست کی کہ وہ سپریم کورٹ سے رجوع ہوتے ہوئے اس معاملہ کی نظرثانی کی درخواست کریں ۔ گلزار اعظمی نے کہا کہ پہلے تین طلاق ، پھر ہم جنسی ، اور اب یہ فیصلہ آنے کے بعد ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارا ملک تباہی کے راستہ پر گامزن ہے ۔اور یہ عذاب خداوندی کو دعوت دینے کے مترادف ہے ۔