نئی دہلی۔ ایودھیا متنازع اراضی کے مالکان حق کے کیس میں سنوائی کے دوران یوپی حکومت نے مسلم پیروکاروں کی جانب اسماعیل فاروقی فیصلے کو چوبیس سال بعد اٹھانے کو لے کر مسلم فریقین کی نیت پر سوال کھڑے کئے ہیں۔
حکومت کے وکیل نے کہاکہ 1994میں ائے فیصلے پر مسلمانوں نے اب تک سوال نہیں اٹھایاتھا۔مسلم فریق سو سال سے چل رہے ایودھیا معاملے کو مزید تعطل کاشکار بنانے کے لئے جسٹس اسماعیل کے فیصلے کا سہارا لے رہے ہیں۔
اسماعیل فاروقی فیصلے میں کہاگیا ہے کہ مسجد میں نماز ادا کرنا اسلام کے اہم حصہ نہیں ہے۔
اس پر مسلم فریق کے وکیل رضوی نے دلیل دی کہ مسجد کی تعمیر نمازکے لئے ہوئی ہے ‘ سیر وتفریح کے لئے نہیں۔
جب یہ فیصلہ1994میں سنایاگیا تب اسلام کے اہم فرائض کیا ہے ان تمام چیزوں کو نہیں دیکھا گیاتھا۔
ان حوالوں کو بھی نہیں دیکھا گیاتھا جس میں کہاگیا ہے کہ مسجد اگر منہدم ہوجائے تو بھی خالی جگہ اللہ کی ہے۔اس فیصلے کو پہلے دوبارہ دیکھاجائے اس کے بعد ہی زمین تنازع کے معاملے کی سنوائی کی جائے۔
اس پر یوپی حکوم کے وکیل ایڈیشنل سالیسٹر جنرل توشار مہتا نے اعتراض جتایا۔یہ فیصلہ زمین پر قبضے کے معاملے تک محدو دتھا۔
موجودہ معاملہ ایودھیا زمین تنازع ہے۔ اس معاملے سے مذکور ہ فیصلے کو کوئی سروکار نہیں ہے۔ سپریم کورٹ میں اگلی سنوائی13جولائی کو ہوگی۔