سٹیزن بل میں لائی گئی ترمیمات میں اور تبدیلیاں

بنگلہ دیش ‘ افغانستان‘ اور پاکستان سے ائے اقلیت ہندو‘ سکھ او رعیسائیوں کو شہریت کا موقف فراہم کرنے کے لئے زیر تجویز ایکٹ کی ترمیمات میں کمی لائی جارہی ہے۔
نئی دہلی۔ پڑوسی ممالک سے ائے ہوئے غیر مسلم باشندوں کو شہری موقف فراہم کرنے کے لئے 1955کے شہری ایکٹ میں مزید تبدیلیاں متوقع ہیں۔ مگر بل کے نقطہ نظر سے بنگلہ دیش کو اس سے باہر نہیں رکھنا چاہئے۔

معاملے کی جانکاری رکھنے والے کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ غیر بی جے پی اراکین مطالبہ کررہے ہیں کہ آسام میں بڑے پیمانے پر احتجاج کے پیش نظر مجوزہ قانون سے بنگلہ دیش کو باہر رکھا جائے ۔مگربی جے پی کے بشمول کئی سیاسی جماعتوں سے انہیں حمایت حاصل نہیں ہورہی ہے۔

بنگلہ دیش ‘ افغانستان‘ اور پاکستان سے ائے اقلیت ہندو‘ سکھ او رعیسائیوں کو شہریت کا موقف فراہم کرنے کے لئے زیر تجویز ایکٹ کی ترمیمات میں کمی لائی جارہی ہے۔موجودہ قانون کے مطابق1958سے قبل مذکورہ ممالک سے ہندوستان میں آکر پناہ لینے والے ہی شہریت حاصل کرنے کے اہل ہیں۔

آسام گنا پریشد اور دیگر تنظیموں کی جانب سے اس بل کے خلاف احتجاج کیاجارہا ہے کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ یہ 1985کے آسام اکارڈ کے خلاف ہے۔ مرکز اور آسام کی حکومت کے درمیان میں1985میں ایک اکارڈ کا معاہدہ کیاگیاتھا‘ جس میں کہاگیاتھا کہ 25مارچ1971کے بعد بنگلہ دیش سے آنے والا کوئی بھی باہری غیر قانونی پناہ گزین کہلایاجائے گا۔

ایک سینئر اپوزیشن لیڈر نے کہاکہ’’نیا قانون اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ 31ڈسمبر2014تک ملک میں آنے والے پناہ گزینوں کو شہریت مل جائے گی‘‘۔ مشترکہ کمیٹی فی الحال کمیٹی کا جائزہ لے رہی ہے۔ اپوزیشن لیڈران کا کہنا ہے کہ بل سے بنگلہ دیش کو علیحدہ کرنے کی بات کو قبول نہیں کیاجائے گا۔

بی جے پی کے ایک لیڈر کا کہنا ہے کہ پاکستان کے غیر مسلم لوگوں کے لئے ہندوستان کے دروازے کھولے جاتے ہیں تو بنگلہ دیش کے ہندو ‘ سکھ اور عیسائی ہندوستان کیو ں نہیں آسکتے۔