سوشل میڈیا باعث زحمت یا راحت ؟ شکیل شمسی

پہلی بار 1972ء میں ایک کمپوٹر سے دوسرے کمپوٹر پر ای میل ارسال کرنے کی تکنیک کی ابتداء ہوئی ۔ پھر ۱۹۹۰ ء میں wwwورلڈ وائڈ ویب کی ایجاد کے ساتھ تو ایک انقلاب ہی آگیا ۔ہمارے ملک میں تو کمپیوٹر راجیو گاندھی کے عہد میں ہی آچکا تھا لیکن انٹر نیٹ سے ہم سب کا تعارف ۱۹۹۵ء میں ہوا جب ودیش سنچارنگم لمیٹیڈ نے انٹر نیٹ خدمات شروع کی ۔

یاہو ،ہاٹ میل او رگوگل نے ہماری زندگی بدل دی ۔۲۰۰۴ء میں فیس بک نے اپنی سرویز شروع کی اورپھر ہم اس قابل ہوگئے ہیں کہ کتابی چہروں کے دیدار گھر بیٹھے کرسکیں ۔۲۰۰۶ء میں ٹوئیٹر کی خدمات شروع کی گئی ۔۲۰۰۹ء میں واٹس اپنی جلوہ سامانیاں بکھیریں ۔۲۰۱۰ء کو انسٹا گرام آگیا لیکن ان سب سہولتوں میں اصل رنگ ۲۰۰۸ء میں اینڈ رائڈ فونس اور پھر ۲۰۱۴ء میں اسمارٹ فونس نے بھرے ۔

اب تو یہ حالت ہے کہ گلی گلی میں اسمارٹ فون لئے ہوئے گھریلو خادمائیں او رفٹ پاتھ پر خوانچہ لگانے والے بھی مل جائیں گے ۔اسی وجہ سے ہمارا موبائیل پر صبح سے شام تک کل ملاکر تین چار سو مسیجس توآہی جاتے ہیں ۔لیکن ہم پریشان ہونے کے بجائے اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ کم سے کم دنیا میں اتنے لوگ تو ہیں جن کو ہمارا نام یاد ہے او رجو ہم کو اس قابل سمجھتے ہیں کہ سلام بھیجیں ۔او رخوش و خرم رہنے کے پیغام بھیجیں ۔

کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ جو سوشل میڈیا کے ذریعہ دعوت و تبلیغ کا کام کرنے کو اپنا فریضہ سمجھتے ہیں او رہر صبح ہماری اصلاح کی خاطر کچھ دینی باتیں ہم کو ضرور بھیج دیتے ہیں ۔

کچھ مسلمانو ں کی تاریخ یاد دلاتے ہیں او رکچھ لوگ کسی پر ظلم ڈھائے جانے والے ویڈیوز یہ کہہ کر اس بھیجتے ہیں کہ اس کو اتنا عام کرو کہ یہ شخص پکڑا جائے ۔حالانکہ ان میں سے بعض کو یہ بھی نہیں معلوم کہ یہ ویڈیو چار پانچ سال پرانی ہے ۔

اسی طرح بچے غائب ہونے کی جھوٹی خبریں پھیلائی جاتی ہیں ۔سوشل میڈیا کے افواہوں کی وجہ سے کتنے ہی لوگوں کو پیٹ پیٹ کر ہلاک کردیا ۔اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر کچھ ایسے ہندو او رمسلمان سرگرم ہیں کو گالیوں ، گفتاریوں ، دھمکیوں اور بد تمیزی کے فن میں یکتا ہیں ۔