نئی دہلی۔جب ایک ہندوستانی ڈاکٹر کی اسٹروک کے بعدسوئس ایلپس کے طبی ماہرین سے ملاقات کے دوران بتایا گیا ہے کہ اس کا بچنا اب ممکن نہیں ہے۔ تاہم وہ اپنے گھر واپس لایاگیا ہے اور اب اس کی صحت میں سدھار بھی آرہا ہے۔ یہ واقعہ بتایا ہے کہ کس
طرح ہندوستان کی طبی ٹیم زندگی بچانے کے لئے امید کی ایک کرن پر بھی کس قدر توجہہ سے کام کرتی ہے ‘ جومغرب کے طبی طریقے کار سے عین مخالف ہے۔پچھلے ماہ فزیشن اجیت دوبئے اپنی اہلیہ نیتا جو پیشے سے گیاناکولوجسٹ ہیں کے ساتھ سوئز ر لینڈ میں رہتے تھے۔
اگست23کے روز نیتا نے محسوس کیاکہ ان کے شوہر دائیں پاؤ ں میں تھرتھر ہٹ ہورہی ہے اور ان کی بات چیت بھی درست نہیں ہے۔
واقعہ یاد کرتے ہوئے نیتا نے کہاکہ ’’ مجھے شبہ ہوا کچھ غلط ہورہا ہے اور میں نے مدد مانگی۔کچھ منٹوں میں ایک ہیلی کاپٹر آیا اور انہیں لوسانی میڈیکل کالج اسپتال لے کر چلاگیا‘‘۔
دوبئے کے دماغ کی لی گئی تصوئیریں بتارہی تھیں کہ دائیں جانب خون کا بڑا انجماد ہے جس کی وجہہ سے اسٹروک ہوا ہے۔
ڈاکٹر س نے فوری طور سے انجماد ہٹانے والی ادوایات دیں تاکہ دماغ تک خون کے بہاؤ کا آسان بنایاجاسکے۔اس عمل کے دوران مذکورہ 62سالہ شخص کو کھوپڑی کے اندر دماغ کے قریبی حصہ میں خون بہنا شروع ہوگیا‘ جو عام طور پر خون کے انجماد کو توڑنے کے لئے دی جانے والی ادوایات کی وجہہ سے ہوتا ہے۔
خون بہنے کی وجہہ سے دماغ پر سوجن آنی شروع ہوگئی۔یہ اور بھی مشکل ہوگیا‘ اور ایک باوقار اسپتال کے ڈاکٹرس نے دوبئے کی صحت یابی کے متعلق تمام امیدیں چھوڑدیں۔نیتا نے کہاکہ ’’ انہو ں نے مجھ سے رابطہ کیا اور کہاکہ میرے شوہر مرنے والے ہیں‘‘۔
اگلے پانچ دنوں کے لئے گھر والوں نے سیوئس ڈاکٹر س پر دباؤ بنائے رکھا کہ وہ دستبرداری کے بجائے جوہرممکن دوا دیں ‘ مگر وہ کوششیں کرنے سے انکار کرتے رہے۔ پھر اس کے بعد گھر والوں نے ہندوستانی سفارت خانہ سے رجوع ہوکر دوبئے کا بذریعہ ہوائی جہاز دہلی لانے کی درخواست دی۔
اپنے اس فیصلے کی وضاحت کرتے ہوئے نتیا نے کہاکہ ’’ میرے کئی سارے دوست او رساتھی ڈاکٹرس ہیں۔ انہو ں نے یوروپ کے بہترین نیروسرجن سے رابطہ کیا‘ مگر ردعمل نہایت منفی تھا۔پھر اندرا پرستھا اپولو کے ڈاکٹر سدھیر تیاگی نے کہاکہ وہ سرجیکل مداخلت کی پہل کریں گے۔
یہ تمانعت کافی تھی اورہم انہیں دہلی لے کرائے‘‘۔زندگی او رموت کی جنگ لڑرہے کوما کے مریض دوبئے کو 28اگست کے روز دہلی لایاگیا۔
انہیں عارضی تنفسی نظام پر رکھا گیاتھا اور ان کے بلڈ پریشر کو برقرار رکھنے کے لئے ادوایات کی بھاری مقدار دی جارہی تھی۔اپولو اسپتال کے کے سینئر نیرو سرجن تیاگی نے ٹی او ائی کو بتایا کہ ’’ ناممکن حالات میں ان کا اپریشن کیاگیا‘لہذا ہم نے اہم پیمانوں کو موثر بنانے کی کوشش کی ۔
میں ساری رات فون پر رہا کیااگلے دن سرجری کرنے ہی یا نہیں اس بات کو طئے کرنے کے لئے‘‘۔حکمت عملی کام کرنے لگی۔ دوائیوں نے دوبئے کا بلڈ پریشر قابو میں رکھا ۔
کھوپڑی کے ایک حصہ کو ہٹایاگیا تاکہ دماغ پر پڑنے والے دباؤ سے چھٹکارہ مل سکے۔ سوجن کم ہونا شروع ہوا۔تیاگی نے کہاکہ’ سرجری تین تا ساڑھے تین گھنٹو ں تک چلی۔ اب دوہفتے ہوگئے ہیں جب سے دوبئے نہ صرف زندہ ہیں بلکہ ان کی صحت میں سدھار بھی آرہا ہے‘‘۔
طبی ٹیم کی تمام تر توجہہ اب دوبئے کے اعصاب کی نگرانی اور انفکشن سے بچانے پر ہے۔ مریض کو مکمل آزادی کے ساتھ بات چیت کرنے کے لئے کچھ او روقت لگے گا‘ مگر جس شخص کو مرنے کے لئے چھوڑ دیاگیا تھا وہ اب ایک کرشمہ کے طور پر آپ کے سامنے زندہ ہے۔