سینئرکانگریس لیڈر سلمان خورشید ایک تقریب کے دوران اپنے تبصرے پر پیش آنے والے تنازع کے متعلق بات کررہے تھے
نئی دہلی۔منگل کے روز علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ایک تقریب کے دوران دئے گئے اپنے ایک بیان کے سبب سلمان خورشید سینئر کانگریس لیڈر وسابق یونین منسٹر طوفان میں پھنسے نظر آرہے ہیں۔ انہوں نے ایچ ٹی سے اپنے بیان اور اقلیتوں کے لئے پیغام کے متعلق بات کی ۔سلمان خورشید سے پوچھا گیا کہ آپ نے یہ کہاتھا کہ کانگریس کے ہاتھ بھی مسلمانوں کے خون میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ کیا آپ اپنے اس بیان کا خلاصہ کرسکتے ہیں اور کس زوایے سے یہ بات آپ نے کہی تھی؟۔ خورشید نے کہاکہ میں علی گڑھ کی سالانہ تقریب میں بی آر امبیڈکر حال میں تھا۔ میںیونیورسٹی کے متعلق بات کررہا تھا ۔
اور آج کے حساس موضوعات جیسے تین طلاق پر بات کی تھی۔ ایک طالب علم اور ایک سابق تعلیم جس کے بعد میں مجھے اندازہ ہوا آگے آیا اور مجھ سے سوال کیا۔ وہاں پر سوال جواب کی منظوری نہیں تھی لہذا میں نے کہا کہ اگے جاؤ۔اس نے بابر ی مسجد اور دیگر فسادات کاحوالہ دیتے ہوئے اس نے کہاکہ میرے دامن پر بھی داغ ہیں۔میں نے پوچھا کیامیرے دامن پر ؟ تو اس نے کہاکہ آپ کی پارٹی۔
میں نے کہاکہ میں ہی میری پارٹی ہوں‘ میں اپنی پارٹی کی نمائندگی کرتا ہوں اور کہاکہ تم کہا تو میں نے اس کو جواب میںیہ کہا‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ کل کے روز کوئی تم پر حملہ کریگا تو میں تمہیں بچانے کے لئے آگے نہیں اؤں؟میں نے مزید کہاکہ دس سال قبل اس طرح کا سوال کرنے کی تمہارے پاس ہمت نہیں تھی۔حقیقت یہ ہے میں نہیں مانتا کہ کانگریس کے کپڑوں پر خون کے دھبے ہیں۔ جب کوئی تم سے الزام عائد کرتا ہے تو آپ کو اس پر اپنا ردعمل دینا پڑیگا۔آپ کو کہنا پڑیگا اگر یہ حقیقت بھی ہے تو‘ اس کا مطلب کیاہوا؟یہ الزامات کی حقانیت کا اعلان نہیں ہے۔آپ ویڈیودیکھیں۔
میں نے اس طرح کی باتیں کیوں کہیں؟اور میں میرے کپڑوں پر خون کے دھبے اورہاتھوں میں خون کے نشانے کے درمیان فرق نہیں کرتا۔ لہذا سوال کا جواب دینا ‘ اس کامطلب یہ نہیں ہے کہ میں نے اس بات کو قبول کرلیا ہے کہ میرے پارٹی کے ہاتھ خون میں ڈوبے ہوئے ہیں؟میں کیسے کرسکتا ہوں؟ پھر میں کیوں مذکورہ فرد کی حفاظت کے متعلق بات کروں؟ قاتل ایک متاثرہ شخص سے کس طرح کہہ سکتا ہے وہ اس کو بچائے۔ ایک قاتل فرضی طور پر قتل کے ملزم سے یہ کہہ سکتا ہے۔ اگر میں کہتا میں قاتل ہوسکتا ہوں ‘ یہ بات مجھے قاتل نہیں بناسکتی ۔
اگر لوگ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں‘ پھر تو انہیں دوبارہ اسکول جانا پڑیگا۔ کب اس ملک میں ایمانداری کے ساتھ بات کرنے کا موقع ملے گا؟۔بڑے سوالا ت جس کے متعلق اس نے پوچھاتھا؟ کیا آپ قبول کرتے ہیں کہ بابری ‘ مظفر نگر کے فسادات کانگریس کے دور میں ہوئے تھے؟یہاں پر اہم بات یہ ہے کہ کانگریس پارٹی نے جو اچھے کام کئے ہیں ان کا ایمانداری کے ساتھ جائزہ لیاجانا چاہئے۔کیاکانگریس نے اس ملک کے اور اس ملک کے مسلمانوں کے کچھ نہیں کیا؟اگر میں اس پر تبصرے کرنے کے لئے بیٹھ جاؤں تو اس کے لئے کافی وقت لگے گا‘ میں کتاب لکھوں گا‘ میں سلسلہ وار لکچر س میں اس بات کا خلاصہ کروں نگا۔
میں پارٹی تقاریب میں اس پر بات کرونگا۔کچھ لوگ جو نظر انداز کردئے ہیں میرے تبصرے کو پارٹی کے خلاف بات کے حوالے سے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔میں اس پر کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہوں گا‘ لہذا سوال کی گنجائش ہی نہیں ہے۔
اس پارٹی میں مجھے بہت کچھ دیاہے۔ اب اور مجھے کیادیگی؟میں اپنی آخری سانس تک پارٹی کا یہ قرض ادا کرتارہوں گا۔ مجھے پارٹی کے اندر کسی قسم کی تکلیف کی گنجائش کیوں پیدا ہوگی؟۔ مجھے امید ہے اور میں میری خواہش بھی یہی ہے کہ پارٹی کو بھی مجھ سے کوئی اعتراض نہیں ہوناچاہئے۔
مگر اپنے سونچ کو محدود نہیں کرسکتا۔ میرا تعلیم کے شعبہ میں کیریر ہے اور مجھے امید ہے کہ مجھکو کو مبصر کے طور پر قبول کیاجائے گا۔کانگریس میری زندگی کی بہترین پارٹی تھی او رہوگی بھی۔ اگر میں کہوں کہ کانگریس نے کوئی غلطی نہیں کی ہے تو یہ ایمانداری کی بات نہیں ہوگی۔
ہم نے غلطیاں کی اور اس کی سیاسی قیمت بھی چکائی اور اس پر اب بھی اگے چل رہے ہیں۔اقلیتوں کو میرا پیغام ہے کہ کانگریس کو نقصان پہنچانے کا عمل ‘ خود کو نقصان پہنچانا ہے۔ آپ بی جے پی کو اقتدار میں لائے ہیں۔ اب آپ کو فیصلہ کرنا ہے کہ انہیں اقتدار میں رکھیں یااس پر دوبارہ غور کریں۔خورشید سے پوچھا کہ مذکورہ بی جے پی کہتی ہے کہ آہ کا بیان کانگریس کے جھوٹی سکیولرازم کی تصدیق ہے۔
جس کے جواب میں خورشید نے کہاکہ اگر وہ میرے الفاظ کو اتنا وزن دیں گے تو میں یہا ں پر ان کے متعلق کہتا ہوں کہ ’’بی جے پی نے فسطائی تشدد اور زہر کو ہندوستانی معاشرے میں متعارف کروایا ہے ‘‘۔ کیا وہ اس بات کو بھی قبول کریں گے؟‘