وزیراعظم نریندر مودی نے آج مسودہ قانون کی منظوری کے لیے اتفاق رائے کی اپیل کی۔ وزیر پارلیمانی امور اننت کمار ہیگڈے نے ہفتہ وار پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں کہا کہ مودی چاہتے ہیں کہ مسلم خواتین کے ازدواجی حقوق کا تحفظ کیا جائے۔ اسی کے لیے یہ مسودہ قانون پیش کیا گیا ہے جس میں صنفی انصاف، احترام اور مسلم خواتین کی صیانت کو یقینی بنایا گیا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ یہ قانون اتفاق رائے سے منظور کیا جائے۔
مجلس کے اسد الدین اویسی نے کہا کہ میرے پرسنل لاس چھینے جارہے ہیں جن کی ضمانت دستور میں دی گئی ہے۔ وزیر نے جن ممالک بشمول پاکستان کے نام بتائے ہیں ان میں سے کہیں بھی طلاق ثلاثہ کو فوجداری جرم قرار نہیں دیا گیا۔ مجھے ایسا ایک بھی ملک دکھائیں ۔ انہوں نے کہاکہ ہمیں راکشس بناکر پیش کیا جارہا ہے۔ 80 فیصد ڈوری کے مقدمات غیر مسلموں کے ہیں۔ بچپن کی شادی کا رواج بھی غیر مسلموں میں زیادہ ہے۔
کانگریس کے سینئر قائد سابق مرکزی وزیر قانون سلمان خورشید نے اظہار ناراضگی پر مبنی نوٹ پیش کرتے ہوئے پرزور انداز میں کہا کہ مجوزہ قانون افراد اور مطلقہ خواتین کی نجی زندگی میں ایک دخل اندازی ہوگا ۔ یہ ایک سیول مسئلہ ہے جسے فوجداری قانون کے دائرہ کار میں نہیں لایا جانا چاہئیے ۔ ان کی پارٹی کانگریس نے مطلقہ مسلم خواتین کیلئے
کافی گزارا الاؤنس فراہم کرنے کا مرکز سے مطالبہ کیا تاکہ وہ باوقار زندگی بسر کرسکیں ۔
انا ڈی ایم کے کے اے انور راجہ کے علاوہ بائیں بازو کے ارکان نے بھی اپنی نشستوں سے اس مسودہ قانون کی مخالفت کی تاہم انہیں تقریروں کی اجازت نہیں دی گئی کیوں کہ انہوں نے نوٹس نہیں دی تھی۔سماج وادی پارٹی قائدین ملائم سنگھ یادو بھی اسی مسودۂ قانون کی مخالفت کرتے دیکھے گئے۔ ترنمول کانگریس جو قبل ازیں اسی مسودۂ قانون کی مخالفت کرچکی ہے، خاموش تھی۔آر جے ڈی کے جے پی این یادو نے مجوزہ تین سال کی سزائے قید پر اعتراض کیا ۔