سر سید نہ ہوتے تو نہ معلوم ہم کہا ں ہوتے؟اخترالواسع

نئی دہلی : اردو اکاد می دہلح کے زیر اہتمام قمر رئیس سلور جوبلی آڈیٹوریم میں منعقد سہ روزہ سمینار ’’ سرسید شناسی ‘‘ کے اختتامی اجلاس سے پروفیسر ا ختر الواسع خطاب کرتے کہا کہ اردو اکادمی کا جب بھی آنا ہوتا ہے تو انہیں خوشی ہوتی ہے۔بہت خوشی کی بات ہے کہ اردواکادمی کے وائس چیر مین کے طور پر پروفیسر شہپر رسول کا انتخاب ہوا۔میں سرسید کا عاشق ہوں۔سر سید کے تمام رفقاء غیر معمولی اہمیت حامل تھے۔جس شخص نے آئین اکبری اور تاریخ فیروز شاہی کا کام کیا ہو اس کے مؤرخ ہونے میں کوئی شک نہیں ۔

سر سید مستقبل شناس ہونے کے ساتھ ماضی کو فراموش نہیں کر تے تھے۔سر سید اس بات کو اچھی طرح جانتے تھے کہ گرتی ہوئی دیوار سے سایہ تلاش کر نا مناسب نہیں ۔انھوں نے کہا کہ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ سرسید نے انگریزوں کی حمایت کی تھی اس میں ان کی خود غرصی شامل نہیں تھی۔سرسید کو اس بات کا شرف حاصل ہے کہ عالم اسلام میں جدید تعلیم کا ادارہ قائم کیا۔

اس سے پہلے اسلام میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔انھوں نے مزید کہا کہ سر سید تھے تو ہم یہاں ہیں سر سید نے ہوتے تو ہم کہا ں ہوتے؟سائنس اور مذہب کے درمیان جوٹکراؤ تھا انھوں نے اسے ایک جملہ میں ختم کردیا۔انھوں نے کہا کہ اگر دین چلا جائے تو دنیا رہتی ہے اور اگر دنیا چلی جائے تو دین بھی غارت ہوجاتا ہے۔اس موقع پر پروفیسر صدیق الرحمن نے کہا کہ میں بھی علیگڑھ یونیورسٹی کا طالب علم ہو ں۔او روہاں سے بہت کچھ سیکھا ہے۔علی گڑھ کے قیام کے بعد تمام تحریکو ں کامنبع سرسید تحریک ہی ہے۔

اکادمی کے وائس چیر مین نے کہا کہ تین دنو ں سے یہ سلسلہ جاری ہے او رآپ سب کی شرکت سے یہ سمینار کامیاب ہوا ہے۔میں آپ سب کا شکر گذا ر ہوں۔سمینار کے آخری روز کے اجلاس کی صدارت پروفیسر خالد محمود اور پروفیسر شہزاد انجم نے کی۔اور نظامت شاہ نواز ہاشمی نے کی۔پروفیسر ظفر احمد نے کہاکہ سمینار کا بھی اپنا ایک تقاضہ ہوتا ہے۔سرسید کے اثرات مرتب ہوئے۔

میں تمام مقالہ نگاروں کو مبارکباد دیتا ہوں ۔سرسید ہندو مسلم اتحاد کے علمبردار تھے۔پروفیسر خالد محمود نے کہا کہ یہ سمینار بہت کامیاب رہا ۔اجس نے بھی اس سمینار کے تمام اجلاسوں میں شرکت کیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس نے تمام کتا بیں پڑھ لیں ۔ میں اردواکادمی اور شہپر رسول کو بہت مبارکباد دیتا ہوں۔