’’ سرجیکل اسٹرائیک یا پھر کارپٹ بمبنگ‘‘ ۔ نوٹوں کی قانونی حیثیت منسوخ کئے جانے کے بعد عوام کو درپیش مسائل کے پر سپریم کورٹ کا ردعمل

نئی دہلی:سپریم کورٹ نے منگل کے روز مرکزی حکومت سے نوٹوں کی منسوخی کے بعد اے ٹی ایم مشینوں ‘ اور بینکوں کے باہر طویل قطاروں کے پیش نظر اٹھائے جانے والے اقدامات کے متعلق وضاحت طلب کی اور کہاکہ عوام کو تکالیف کا سامنا کرنے نہیں دیاجائے۔

بناء کسی نوٹس کی اجرائی کے مرکزی حکومت سے جواب دائرکرنے کے حکم جاری کرتے ہوئے چیف جسٹس ٹی ایس ٹھاکر اور جسٹس ڈی وائی چندچوڑ نے کہاکہ ہم نہیں چاہتے کہ حکومت پالیسی میں مداخلت کریں مگر گھنٹوں انتظار کرتی ہوئی طویل قطاریں ایک صدمہ میں ہیں۔500اور 1000کے کرنسی نوٹوں کے استعمال کی حد8نومبر تک مقرر کی گئی تھی جس پر عدالت کی جانب سے لگائے گئے روک کو واپس لینے کی گذارش کو مسترد کرتے ہوئے چیف جسٹس ٹھاکر نے اٹارنے جنرل مکل روہتگی سے کہاکہ چار میں سے ایک درخواست گذار کی درخواست کو نامنظور نہیں کرکے کیا ہم لوگوں کو اپنے پیسے کیلئے گھنٹوں تک طویک قطاروں میں کھڑے رہنے کے مجبور کریں۔ آپ لوگ رقم نکالنے کی حد میں کیوں معقول حد تک اضافہ نہیں کرتے؟یہ افسوس ناک بات ہے کہ لوگ بناء کچھ کئے گھنٹوں تک طویل قطاروں میں کھڑے ہوئے ہیں۔بنچ نے کہاکہ ’’ ہمیں حیرت ہوگی اگر آپ عام آدمی کو درپیش اس حسا س مسلئے سے باہر آنے میں اس کی مدد کریں گے‘‘۔

سینئر کونسل کی حیثیت سے کپل سبل نے بنچ کو بتایا کہ چھوٹے کاروباری اور اسٹریٹ وینڈرس جن کا کاروبار نقدی پر منحصر ہے وہ اس اقدام کی وجہہ بری طرح متاثرہوئے ہیں۔سبل چار میں سے ایک درخواست گذار ہیں جنھوں نے نوٹوں کی منسوخی کو ’’ عام آدمی پر سرجیکل اسٹرائیک‘‘ قراردیتے ہوئے عدالت سے رجوع ہوئے ہیں۔چیف جسٹس ٹھاکر نے مشاہدہ کے بعد کہاکہ’’ اٹارنی جنرل کیاکہتے ہیں وہ سرجیکل اسٹرائیک ہے اور آپ جو کہتے ہیں وہ کارپٹ بمبنگ ہے‘‘۔حکومت کے اقدام پر توقف کے ارادے کو یکسر مستردکرتے ہوئے کپل سبل نے کہاکہ کالے دھن کو ختم کرنے میں ہم حکومت کے ساتھ ہیں مگر اس اقدام سے عام آدمی کو تکلیف ہم برداشت نہیں کرسکتے۔

اسے ہم عوامی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے کا اقدام سمجھتے ہیں۔86فیصدکرنسی ناکارہ کردئے جانے کا حوالہ دیتے ہوئے کونسل پٹیشنر نے کہاکہ’’ یہ میرا پیسہ ہے‘ میرا جائزپیسہ‘ ٹیکس ادا کیا ہوا‘ ملکی قوانین کے تحت جس کو نکالنے میں آپ مجھ پر تحدیدات کیسے لگا سکتے ہیں؟‘‘۔اٹارنی جنرل مکل رہتگی نے نوٹوں کی منسوخی کو قانونی دفعات کا حوالہ دیتے ہوئے حمایت کی اور کہاکہ حکومت کے اس فیصلے سے یقیناًکچھ تکلیف ہوگی مگر ملک کی معیشت میں سدھار کے لئے یہ قدم اٹھایاجارہا ہے لہذا’’ معاشی پالیسی معاملات میں‘‘ عدالت مداخلت نہ کرے۔

جس پر برجستہ جواب دیتے ہوئے چیف جسٹس ٹھاکر نے کہاکہ’’ ہم آپ کے معاشی پالیسی معاملات ‘‘ میں مداخلت نہیں کررہے ہیں۔سبل کی جانب سے کرنسی نوٹوں کی منسوخی کے متعلق حکومت کی جانب سے قانون کے مطابق کام کرنے کے سوال کو جواب دیتے ہوئے اٹارنی جنرل نے کہاکہ’’ ہم نے کوئی قانو ن پاس نہیں کیاکہہ رہے ہو ہم نوٹوں کی قانونی حیثیت ختم کرنے کے متعلق ایک اعلامیہ جاری کرنے جارہے ہیں‘‘او رکہاکہ ’’عام آدمی کو کچھ تکلیف ضرور ہوگی اگر کالے دھن کے خلاف سرجیکل اسٹرائیک ہوتی ہے تو‘ماضی میں بھی انہیں اسکوٹر خریدنے‘ فیٹ کار خریدنے اور راشن حاصل کرنے میں تکلیفوں کا سامنا ہوا ہے۔ِاٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ یہ اقدام کالے دھن اور دپشت گردوں کو فنڈنگ کے خلاف اٹھایاگیا ہے ۔

انہوں نے مزیدکہاکہ اس میں کچھ نقصان ضرورہوا ہے۔او رکہاکہ میں یہاں دولاکھ اے ٹی ایم سنٹرس کو درج نہیں کرسکتا جہاں پر بلی تھیلے سے باہر نکل کر آرہی ہے۔جس کی منظر کشی وزیر فینانس ارون جیٹلی نے کی ہے۔اٹارنی جنرل نے کہاکہ 3.25لاکھ کروڑ کی رقم 500اور 1000روپئے کی شکل میں نوٹوں کی منسوخی کے بعد بینک میں اب تک جمع ہوئے ہے اور حکومت کوامید ہے 10اور 11لاکھ کر وڑ کی رقم بینک میں مزید جمع ہوگی جبکہ15اور 16لاکھ کر وڑ کی سرکولیشن میں ہے۔عدالت کا جواب دیتے ہوئے اٹارنی جنرل نے کہاکہ ہم یومیہ دس ہزار کروڑ روپئے معیشت میں جمع کررہے ہیں اور کہاکہ تکلیف صرف نوٹوں کی منسوخی کے سبب نہیں ہے۔