تین لاکھ سے زائد رائے دہندوں نے نوٹا کا استعمال کیا
حیدرآباد ۔ 17 ۔ مئی (سیاست نیوز) سدا رامیا حکومت کے خلاف کرناٹک کے عوام کی ناراضگی کا دلچسپ مظاہرہ حلقہ اسمبلی بادامی میں دیکھنے کو ملا جہاں سے سدا رامیا معمولی اکثریت سے منتخب ہوئے ۔ سدا رامیا نے بادامی کے علاوہ چامنڈیشوری اسمبلی حلقہ سے مقابلہ کیا تھا لیکن انہیں اس حلقہ میں جنتا دل امیدوار نے بھاری اکثریت سے شکست دیدی۔ بی جے پی کرناٹک کی کامیابی کو نریندر مودی کی مقبولیت اور جادو کا نتیجہ قرار دے رہی ہے لیکن سدا رامیا حکومت سے عوامی ناراضگی کا اندازہ خود ان کے دو حلقوں میں دکھائی دیا ۔ چیف منسٹر کا ایک اسمبلی حلقہ سے شکست سے دوچار ہونا ان کی حکومت سے عوامی ناراضگی کا واضح ثبوت ہے۔ دوسرا حلقہ بادامی جہاں سے سدا رامیا کو کامیابی ملی ۔ دلچسپ بات یہ رہی کہ انہوں نے جس اکثریت سے کامیابی حاصل کی ، اس سے زیادہ ووٹ رائے دہندوں نے نوٹا کے بٹن پر دبائے ۔ یہ خود اس بات کا ثبوت ہے کہ رائے دہندوں نے انتخابی میدان میں موجود تمام امیدواروں کو مسترد کردیا ۔ بتایا جاتا ہے کہ 2007 ء ووٹ نوٹا کے تھے جبکہ سدا رامیا کی اکثریت 1696 ووٹ کی رہی۔ اس معمولی اکثریت سے کامیاب ہونا چیف منسٹر کے لئے اخلاقی شکست کے مترادف ہے۔ ایک ان کے حلقہ میں 2007 ء میں رائے دہندوں نے نوٹا کے حق میں بٹن دباکر اپنی ناراضگی جتائی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ کرناٹک کے تمام اسمبلی حلقوں میں 3.2 لاکھ ووٹ نوٹا کے حق میں پڑے ہیں۔ مجموعی رائے دہی کا 0.9 فیصد حصہ نوٹا کے حق میں رہا ۔ اس سے عوام میں سیاسی جماعتوں اور امیدواروں سے ناراضگی کا اظہار ہوتا ہے۔ نوٹا کے تحت سب سے زیادہ ووٹ ساؤتھ بنگلور اسمبلی حلقہ میں ڈالے گئے ۔ اس کے علاوہ شہری علاقوں میں رائے دہندوں نے نوٹا بٹن کا زیادہ استعمال کیا۔ 7 اسمبلی حلقوں میں نوٹا کے ووٹ ان حلقوں کے کامیاب امیدواروں کی اکثریت سے زیادہ رہے۔ ان میں کانگریس 6 حلقوں جبکہ بی جے پی نے ایک حلقہ سے کامیابی حاصل کی۔ ای وی ایم مشین پر نوٹا بٹن متعارف کرنے کے بعد سے رائے دہندوں کی دلچسپی میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ گجراب میں 2017 ء انتخابات میں 1.8 فیصد جبکہ بہار میں 2015 ء انتخابات میں 2.5 فیصد رائے دہندوں نے نوٹا کا استعمال کیا تھا۔