ترویننتھا پورم۔ کیرالا کے سبر یمالا مندر میں داخل ہونے کی کوشش کرنے والے بی ایس این ایل کی ملازم ریحانہ فاطمہ اب ہندوؤں او رمسلمانوں دونوں کے نشانے پر ہے ۔ حالانکہ ریحانہ کا تبادلہ دوسری ٹیلی فون ایکسچینج میں کردیاگیاہے ۔
جہاں پر انہیں عوام سے رابطے کا کام کرنا ہوگا۔ انہیں اس لئے نکالا گیاتھا کیونکہ سبریملا کرم سمیتی نے منگل کے روز ان کے دفتر تک مارچ نکال کر فاطمہ کو ہٹانے کامطالبہ کیاتھا۔ وہیں انہیں ہندوؤں کے مذہبی جذبات مجروم کرنے کے الزام میں مسلم جماعت کونسل نے مذہب اسلام سے بیدخل کردیاتھا۔
ان سب واقعات کے باوجود ریحانہ فاطمہ نے کہاکہ وہ خواتین کے حقوق کے لئے اپنی جدوجہد کو جاری رکھیں گی۔اسی دوران فاطمہ نے اس خبر کوبھی بے بنیاد قراردیا جس میں ان پر مندر کے اندر سینٹری نیپکن لے جانے کا بھی الزام عائد کیاگیاہے۔
فاطمہ نے کہاکہ مجھے سمجھ نہیںآتا کہاں کہاں سے افواہ آڑاتے رہتے ہیں۔ ایک افواہ یہ بھی ہے کہ میں سینٹر ی نیپکن لے کر مندر جارہی تھی۔ مجھے نہیں معلوم کے یہ افواہ کہاں سے آڑائی گئی ہے۔مسلسل مل رہی دھمکیوں کے بیچ فاطمہ کے گھر پر فی الحال سکیورٹی فراہم کی گئی ہے
۔فاطمہ کا کہناہے کہ ان کے گھر پرتھوڑ پھوڑ بھی کی گئی ہے۔ ان کے بچوں کے اسکول یونیفارم میں گائے کاگوبر لگادیاگیاہے او ران کے کھلونے توڑ دئے گئے ہیں۔ اس واقعہ کے بعد سے ان کے بچے کافی ڈرے ہوئے ہیں۔مذکورہ 31سال کی فاطمہ ایک غیرمسلم کے ساتھ لیونگ ریلیشن شپ میں رہتی ہیں۔
وہ شروع سے ہی دھرم اورمذہب میں رکاوٹیں پیدا کرنے والے رسومات کی مخالفت کے طور پر آواز اٹھاتی رہی ہیں۔ انہو ں نے کہاکہ جس دن انہوں نے ایک غیرمسلم کو اپنا ساتھی منتخب کیاہے تب سے ہی مسلم کونسل مجھے نشانہ بنارہا ہے۔ اور خاندان کے ساتھ مسلم سماج سے باہر کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں۔
سرکاری ملازمت انجام دینے والی فاطمہ کے دوبچے ہیں۔سرکار ی نوکری کے علاوہ فاطمہ ماڈل او راداکار بھی ہیں۔انہوں نے کہاایکا نام کی ایک فلم میں کام کیاہے۔ جسکو ان کے پارٹنر منوج نے پرڈویوس کیاتھا۔ اس فلم میں فاطمہ نے برہنہ او ر کافی بولڈ سین بھی کئے تھے۔