ساتا واہانا یونیورسٹی میں منوسمرتی کی پرچیاں نذر آتش کرنے والے دلت ‘ بہوجن پر حملہ

کریم نگر۔ ریاست تلنگانہ کے کریم نگرضلع میں واقع ساتا واہانا یونیورسٹی کے پیر کے روزمارپیٹ کا واقعہ پیش آیا‘ مبینہ طور پر بھارتیہ جنتا پارٹی سے تعلق رکھنے والے کم سے کم باہر سے ائے لوگوں نے دلت بہوجن طلبہ کی جانب سے یونیورسٹی کیمپس میں منوسمرتی دھن دیوس کے خلاف منعقدہ پروگرام کو درہم برہم کردیا‘ اور طلبہ کو پتھروں اور لاٹھیوں سے نشانہ بھی بنایاگیا۔دونوں گروپوں کے 22افراد کو پولیس نے حراست میں لیاہے۔ مبینہ طور پر پولیس نے ان کے موبائیل فون بھی ضبط کرلئے ہیں۔جن طلبہ پر حملہ کیاگیا ہے ان کا تعلق پروگریسیو ڈیموکرٹیک اسٹوڈنٹ یونین‘ دلت اسٹونٹ یونین‘ تلنگانہ ودیارتی ویدیکا اور بہوجن اسٹوڈنٹ یونین سے ہے ۔

https://www.youtube.com/watch?v=S-SSl9VFt_w&feature=youtu.be

ان لوگوں نے منوسمرتی کو نذر آتش کرنے کا دن مقرر کیاتھا جس نسلی پرستی پر مشتمل ’منو قانون ‘ہے۔پی ڈی ایف اسٹوڈنٹ لیڈر جوپکا سرینواس نے ٹی این ایم سے بات کرتے ہوئے کہاکہ ’’ ہمیشہ کی طرح نسلی پرستی پر مشتمل کتاب کو ہم نے جلانے کا منصوبہ بنایا ۔واقعہ 10:30صبح کے قریب میں پیش آیا ۔ ہمیں نہیں جانتے کہ وہ لوگ کون ہیں۔ وہ لوگ کیمپس میں جبراً داخل ہوئے جہاں پر ہم منوسمرتی پیپرس کو نذر آتش کررہے تھے۔ وہ لوگ پتھر اورلاٹھیوں سے لیز پوری تیاری کے ساتھ ائے تھے اور آنے کے ساتھ ہی ہم لوگوں پر حملہ کردیا‘‘۔

انہوں نے مزیدکہاکہ ’’ کوئی بات چیت نہیں کی گئی‘‘ اور مزیدکہاکہ ’’ اس طرح کا یہ پہلا واقعہ ہے جوکیمپس کی تاریخ میں رونماہوا ہے جس میں کوئی بشمول اکھل بھارتیہ جنتا پارٹی( اے بی وی پی)‘ نے منوسمرتی جلانے پر اعتراض جتا یا ہے‘‘۔تاہم اسٹیٹ بی جے پی ترجمان بنڈی سنجے نے ان تمام دعوؤں کو جس میں منوسمرتی نذرآتش کرنے کے خلاف واقعہ کی مخالفت کی بات کہی گئی ہے مسترد کیا اور کہاکہ بی جے پی نے اس وقت مداخلت کی جب بھارت ماتا‘ ہند و مذہب اور آر ایس ایس کے خلاف نعرے لگائے جارہے تھے۔

انہوں نے مزید یہ بھی کہاکہ واقعہ یونیورسٹی میں نہیں بلکہ باہر جیوتی راؤ پھولے سرکل کے قریب پیش آیا۔انہوں نے کہاکہ ’’ جب وہ بھارت ماتا کی تصویر پھاڑ کر بھارت ماتا کے خلاف نعرے لگارہے تھے ‘ دومقامی بشمول دلت نے اس پر اعتراض جتایا۔ تاہم انہی لوگوں نے طلبہ کے ساتھ مارپیٹ کی ۔ بعدازاں بی جے پی کارکن اور مقامی لوگوں نے مداخلت کی‘‘۔

ان کا دعو ی یہ بھی ہے کہ بی جے پی ورکرس پر پہلے طلبہ نے حملہ کیاتھا۔سنجے نے کہاکہ ’’ پولیس کی مداخلت کے بعد جب طلبہ کو کیمپس میں واپس بھیج دیا گیا ‘ تب ان لوگوں نے ہم پر پتھراؤ کیا۔ اس میں کچھ لوگ زخمی ہوئے جو دلت ہی ہیں‘‘۔پولیس کو مورد الزام ٹھراتے ہوئے سنجے نے کہاکہ پولیس نے بھی صرف بی جے پی ورکرس کے پتھر اؤ کرنے والے ویڈیو فوٹیج لئے ہیں۔کریم نگر ایڈیشنل ڈی سی پی لا اینڈ ارڈر سنجیور کمار نے دعوی کیا ہے کہ حملہ آور طالب علم ہی تھے‘ جو اٹل بہاری واجپائی کی سالگرہ منارہے تھے ۔ڈی سی پی نے کہاکہ ’’ جب ان لوگوں نے دیکھا کہ دلت بہوجن طلبہ منوسمرتی جلانے کی کوشش کررہے ہیں‘ تو اس پر اعتراض جتایا۔ دونوں گروپوں کے درمیان لفظی تکرار ہوئے ‘ جس کے بعد دوگروپوں کی جانب سے پتھراؤ کاسلسلہ شروع ہوا‘‘۔

کیمپس کے حالات کو معمول پر لانے کی بات کرتے ہوئے انہو ں نے کہاکہ ’’ ہم لوگ ویڈیوز کا مشاہدہ کررہے ہیں تاکہ تشدد کے وجہہ کے اسباب جان سکیں اور خاطیو ں کے خلاف قانونی کاروائی کی جاسکے‘‘۔اسی یونیورسٹی کی پروفیسر اور سماجی کارکن سجاتا سورے پلی پولیس کی جانب سے پیش کئے جارہے دعوؤں کو مستر کرتے ہوئے کہاکہ ’’ پولیس کی جانب سے لگائے جانے والے الزامات بے بنیاد ہیں۔ غنڈہ طالب علم نہیں تھے‘ وہ باہر سے ائے ہوئے تھے ‘ جن کا آر ایس ایس سے تعلق ہے‘‘۔

واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ’’ کس طرح باہر کے لوگ یونیورسٹی میں داخل ہوسکتے ہیں؟ یہ پروگرام بی جے پی یا آر ایس ایس کے دفتر میں منعقدنہیں ہوا تھا۔ غنڈہ کو گرفتار کرنے کے بجائے پولیس بے قصور دلت او ربہوجن طلبہ کو حراست میں کیوں لے رہی ہے؟۔سنجے نے سجاتا سورے پلی پر بھی عوام کو گمراہ کرنے کا الزام عائد کیا۔ سنجے نے کہاکہ ’’ سجاتا واقعہ کو دلتوں پر حملے کے طور پر پیش کررہی ہیں۔ بی جے پی کی طرف سے زخمی ہونے والے بھی دلت ہی ہیں‘‘