سابق امریکی سکریٹری آف اسٹیٹ نے مبینہ طور پر سعود ی ٹروپس کو خلیج کے پڑوسی پر حملے کرنے سے بچایا‘داخلی رپورٹ میں اس بات کا انکشاف ہوا ۔
یوایس اے۔ سعودی عربیہ او رمتحدہ عرب امارات نے پچھلے سال جون میں قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات کا بحران شروع ہونے کے ساتھ ہی حملے کی تیاری کا منصوبہ بنایالیاتھا مگر سابق امریکی سکریٹری برائے اسٹیٹ ریکس ٹیلرسن نے اس کو روکادیا جس کے نتیجے میں انہیں ان کو عہدہ سے برطرف کردیاگیاتھا۔
تحقیقاتی نیوز ویب سائیڈ کے مطابق اس منصوبہ میں متحدہ عرب امارات کی فوج کی حمایت سے سعودی کی زمینی فوج قطر کی سرحدوں میں ایک سو کیلومیٹر تک رسائی کرنے کے بعد قطر کی درالحکومت پر قبضہ جمانے کا منصوبہ بنالیاتھا۔
امریکی خفیہ اداروں اور محکمہ برائے ریاست کے دوسابق عہدیداروں سے حاصل جانکاری کی بنا پر اس میں کہاگیا ہے‘ حملہ کے لئے سعودی عربیہ اور متحدہ عرب امارات کے جانشینوں نے بڑے پیمانے پر تیاری کی تھی’’جو امتناعات کے کچھ ہفتوں تک جاری رکھنے کے منصونے کے تحت تھا‘‘۔
رپورٹ کاکہنا ہے کہ قطر کے امیر شیخ تمیم بن حامد التحانی کے خلاف حملہ میں ملوث سعودی فورسس العبید ہوائی پٹی کا استعمال کریں گے جو دس ہزار امریکی فوجیوں اورامریکی ائیر فورس کے سنٹرل کمانڈنٹ کا گھر ہے‘ اور پھر دوحہ پر قبضہ جمالیں گے۔
العبید امریکہ کا ایک اہم فوجی اڈہ ہے جہاں سے ساری مشرقی وسطی میں وہ کاروائی انجام دیتے ہیں۔
تاہم ٹیلرسن کو قطری خفیہ ذرائع سے اس منصوبے کی جب جانکاری حاصل ہوئی تو انہو ں نے مبینہ طور پر سعودی عرب کے کنگ سلمان کو حملہ کرنے سے منع کیا اورڈیفنس سکریٹری جیمس ماٹیس کو بھی مملکت میں اپنے ہم منصبوں پر حملے سے پیدا ہونے والے مضر اثرات سے واقف کروانے کے متعلق حوصلہ افزائی کی۔
ٹیلرس سن کے اس دباؤ کی وجہہ سے محمد بن سلمان جو ایم بی ایس کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں کو اپنا قدم پیچھے ہٹانے کے لئے مجبور کردیا‘ جنھیں خدشہ تھا کہ انکار امریکہ او رسعودی عربیہ کے طویل مدتی تعلقات کے لئے نقصاندہ ثابت ہوسکتا ہے۔
تاہم ٹیلرسن کی مداخلت نے مبینہ طور پر محمد بن زائد جس کو ایم بی زیڈ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے کے ساتھ ابوظہبی کے ولعیہداور یواے ای کے حقیقی حکمران کو بعد میں وائٹ ہاوز میں ٹیلرسن کو ہٹانے کے لئے کام کرنا پڑا۔
ایم بی زیڈ کی قطر سے قدیم دشمنی ہے اور1996میں قطری حکومت کے خلا ف ایک ناکام بغاوت کی بھی اس نے مدد کی ہے‘ اس وقت وہ یو اے ای مصلح دستوں کے سربراہ کے طور پر خدمات انجام دیتے تھے۔
جانکاری دینے والے کا کہنا ہے کہ سابق اور موجودہ عہدیداروں سے لے گئے انٹریومیں کسی نے بھی اس بات کی راست توثیق نہیں کی ہے کہ ٹیلرسن کو ہٹانے میں ٹرمپ نے فیصلہ کیو ں لیاتھا مگر ذرائع کا کہنا ہے کہ جن حالات میں ٹیلرسن کو ہٹایاگیا ہے وہ قابل غور ضرور ہیں۔ کیونکہ ایک ہفتہ قبل ہی سعودی ولیعہد واشنگٹن ائے تھے اور یہ دورے کافی سرخیوں میں بھی رہا ہے جو ان حالات کی طرف واضح اشارہ کررہا ہے۔