جب وہ ایس پی تھے اس وقت کے پچیس سال پرانے ایک کیس جس کی متعلق شکایت ایک صنعت کارنے کی ہے ‘ مذکورہ ائی پی ایس افیسر ہائی کورٹ میں اپنی درخواست ضمانت پر سنوائی کا مسلسل انتظار کررہے ہیں۔
احمد آباد۔کم روشنی والی ایک ٹرک جس پر نمبر پلیٹ نہیں تھی شویتا بھٹ کی کار کو روند کرچلاتا ہے ‘ وہ پریشان ہوگئی مگر ان کے دماغ سازشی نظریات کی طرف مائل ہوا۔ وہ اور ان کا بیٹا شانتو کو معاملے چوٹیں ائیں مگر کار بری طرح تباہ ہوگئی ۔
افسوس کی بات ہے کہ ٹرک ڈرائیور کے پاس دستاویزات نہیں تھے اوردعوی کیاجارہا ہے کہ اس کو احمد میونسپل کارپورشن کے ایک کنٹراکٹر نے کرایہ پر بلایاتھا۔
انہو ں نے کسی پر الزام عائدکرنے کے بجائے واقعہ کے بعد موقع پر پہنچی پولیس کو انہوں نے ایک بیان دیا ‘ کہ اب تو دیر ہوگئی حادثے کے ذریعہ مجھے خوفزدہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
گجرات فسادات کے اہم عینی شاہد اور غیر حاضری پر گجرات حکومت کی جانب سے برطرف کردئے جانے والے گجرات کے ائی پی ایس افیسرسنجیو بھٹ ایس پی کے عہدے پر فائز رہنے کے دوران ایک صنعت کار کی شکایت کے معاملے میں5ستمبر 2018سے قید ہیں۔
پچھلے سال 5ستمبر کے روز پولیس کی بھاری جمعیت سنجیوبھٹ کے گھر میں دخل ہوئی او رانہیں 23سال پرانے کیس کے معاملے میں پوچھ تاچھ کے نام پر کسی نامعلوم مقام پر لے کر چلی گئی۔
نریندر مودی کے وزیراعظم بننے کے بعد ائی پی ایس افیسر کے عہدے سے ہٹائے گئے سنجیو بھٹ 5ستمبر سے پالن پور ضلع جیل میں بند ہیں ۔ پچھلے تین ماہ سے پالن پور کی ضلع سیشن کورٹ میں زیر التواء ان کی درخواست ضمانت بالآخر نامنظور کردی گئی۔
ریاستی حکومت کی جابن سے بھٹ کو پچھلے جولائی سے ایک کے بعد دوسری ہرسانی کاسامنا کرنا پڑرہا ہے ‘ باوجود اسکے وہ 2002فسادات کے اہم گواہ ہیں پولیس نے ان کی سکیورٹی ہٹا دی۔
کچھ دنوں بعد احمد آباد میونسپل کارپوریشن نے بھٹ کے گھر کا کچھ حصہ کو بھی منہدم کردیا جس میں وہ 23سال سے رہ رہے ہیں۔
ان لوگوں نے کچن ‘ واشروم اور بیڈروم کا کچھ حصہ ڈھادیاتھا جس کی وجہہ سے پوری عمارت کو نقصان ہوا ۔ستمبر5کے روز سی ائی ڈی کرائم برانچ ان کے گھر میں8بجے صبح داخل ہوئی ۔
افیسروں کا بہانا ان کا بیان لیناتھا۔ شویتا نے یاد کرتے ہوئے کہاکہ ’’ مذکورہ سی ائی ڈی کرائم برانچ افیسروں کی ٹیم ہمارے بیڈروم میں داخل ہوئی جبکہ میں وہاں سورہی تھی‘ یہ سب جانتے ہوئے بے شرمی کے ساتھ میری نجی زندگی میں مداخلت کی‘ حالانکہ سنجیو نے پہلے ان سے ملاقات کرلی تھی اور وہ ان کے ساتھ جانے کے لئے کپڑے تبدیل کررہے تھے‘‘۔
ستمبر6کے روز سی ائی ڈی نے سنجیو کو پالن پور عدالت میں22سال قدیم کیس میں پیش کیااور چار روز کا ریمانڈ مانگا۔ عدالت نے منظوری دینے سے انکا ر کردیا‘ عدالت کا ماننا تھا کہ ’’ اس موقع پر پولیس کو ریمانڈ دینا قابل قدر بات نہیں ہے‘‘۔مجسٹریٹ کے احکامات کو حکومت کی جانب سے ہائی کورٹ میں چیالنج کیاگیا ۔
جہاں سے سنجیوبھٹ کو گجرات ہائی کورٹ نے دس روز کی پولیس تحویل میں روانہ کردیا۔گجرات ہائی کورٹ کے جاری کردے ریمانڈ احکامات کو سنجیو بھٹ نے سپریم کورٹ میں چیالنج کیا۔
سنوائی24ستمبر کے روز مقررکی گئی۔ مذکورہ سپریم کورٹ نے 4اکٹوبر کے روز سنوائی کو ٹال دی جس پر ریمانڈ کی مدت پہلے ہی ختم ہوگئی تھی۔اس کے بعد سنجیوبھٹ کو پولیس تحویل سے عدالتی تحویل میں بھیج دیاگیا۔
سپریم کورٹ نے یہ مانتے ہوئے کہاکہ ریمانڈ کی معیاد مکمل ہوگئی تو لہذا ان کے وکیل کوہدایت دی کہ وہ ضمانت کی درخواست کے ساتھ’’ مناسب عدالت سے رجوع ہوجائیں‘‘۔سیشن کورٹ میں داخل درخواست پر جج نے سنوائی کی ۔
مذکورہ یاست نے ضمانت کی درخواست کو چیالنج کرنے کے لئے حلف نامہ تیار کرنے کا بہانہ بناتے ہوئے دس روز کی مہلت مانگی ‘ حالانکہ اس 22سالہ پرانے کیس میں سنجیو نے دس روز کی پولیس تحویل بھی کاٹ لی تھی جس پر سپریم کورٹ نے16اکٹوبر تک روک لگائی تھی۔
اکٹوبر16کے روز سیشن کورٹ کو سنجیو کی ضمانت درخواست پر سنوائی کرنی تھی ۔ مگر حکومت کے وکیل 3بجے پہنچے۔ سنوائی کومزیدٹالنے کے لئے انہوں نے عدالت سے کیس کی تیاری کے لئے د س دنوں کا وقت مانگا۔
ایک کیس جو حادثاتی طور پر گجرات حکومت بمقابلہ راجستھان حکومت تھا ‘ مگر یہ اچانک گجرات حکومت بمقابلہ سنجیو بھٹ بن گیا۔سیشن کورٹ نے 12ڈسمبر کے روز سنجیو بھٹ کی درخواست ضمانت کو مستر د کردیا جس کی وجہہ سے انہوں نے ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی ۔
تاہم جسٹس اے وائی کے گوجی نے اس کیس سے خود کو ہٹالیا اورمعاملہ جسٹس ایس ایچ ورا کی عدالت میں پہنچا جنھوں نے اپنے8جنوری تک اپنا جواب داخل کرنے کے لئے حکومت کو ایک نوٹس جاری کی تھی۔
تاہم جنوری 8کے روز معاملے اچانک جج سی ایچ ورا کے پاس سے ہٹاکر جسٹس سونیاسولنکی کے پاس پیش کردیاگیا ۔ ایک روز قبل 7جنوری کے روز شویتا کی کار کو ایک ٹرک نے ٹکر ماردی