نئی دہلی: ہندوستان کے آئین میں مساوات ، بھائی چارہ اور آزادی کی بات مضبوطی کے ساتھ کی گئی ہے ۔ لیکن عملی سطح پر ا س کا نفاذ نہیں ہو سکا۔تعلیم،اقتصادیا ت اور معاشرت تمام محاذ پر ہندوستان سماج میں تفریق پائی جا تی ہے۔دنیا کے دیگر ممالک کی بھی یہی صورت حال ہے۔ان خیالات کا اظہار معروف قانون داں پروفیسر فیضان مصطفی نے آئی او ایس کی سہ روزہ کانفرنس کے اختتامی اجلاس میں کیا۔
انھوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ مساوات ،انصاف اور بھائی چارہ کی تعریف کر تے ہوئے کہا کہ ہندوستان کے آئین میں تمام امور کی ضمانت دی گئی ہے۔لیکن عملی سطح پر ایسا نہیں ہے۔سینکڑوں گاؤں ایسے ہیں جہاں پر دلتوں کو گھوڑے پر بارات لیجا نے کی اجازت نہیں ہے ۔
انھوں نے موہن بھاگوت سے درخواست کی ہے کہ وہ ریزوریشن پر نظر ثانی کریں ۔انھوں نے ہندوستانی عدلیہ کے مختلف فیصلوں کا حوالہ دیتے ہو ئے کہا کہ ایک طرف مساوات او ربھائی چارہ کی بات ہو تی ہے لیکن دوسری طرف ایسے فیصلے کئے جا تے ہیں جس سے ان امور پر سوالیہ نشان لگتے ہیں ۔
انھوں نے کہا کہ خواتین کو برقع پہننا ذاتی مسئلہ ہے ۔مذہب انسان کاذاتی معاملہ ہے۔اس لئے اسے تبدیل کرنے اور کسی بھی مذہب کو اختیار کر نے کا مکمل حق ہے ۔
اس پر آواز اٹھانا آزادی کے خلاف ہے۔آئی او ایس کے چیر مین ڈاکٹرمحمد منظور عالم نے اپنے صدارتی بیان میں تمام شرکاء مہمانوں اور دیگر کارکنان کا شکریہ ادا کر تے ہو ئے کہا کہ آئی اوایس تیس سالہ تقریبات کے ضمن میں مساوات ،بھائی چارہ ء آزادی اور انصاف کے عمل کو سماج میںیقینی بنانے کے لئے یہ پہل ہے۔
ترکی کے معروف عالم دین ڈاکٹر محمد اکرم نے اپنے بیان میں کہا کہ عربی مسلمانوں کی مادری زبان ہے۔مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ میں ہندوستان میں اپنے ہی بھائیوں کے ساتھ ہوں۔پروفیسر اختر الواسع نے اپنے خطاب میں کہا کہ مسلک کی بنیاد پر سماج میں اختلاف نہیں ہونا چاہئے۔اپنی مرضی کے مطابق جو مسلک چاہے اختیار کر لیں لیکن دین اسلام کی بنیاد پر تنازع نہ کریں ۔