روہنگی خاتون’’بندوق کی گولیوں کے سائے میں اپنے کوک میں بچے کو لیکر بھاگ رہی تھی‘‘

کوکس بازار۔ جب اس پر گولیاں چلائی جارہی تھی اسی دوران ایک روہنگی عورت اپنے بچے کو پیٹھ پر باندھ کر جان بچانے کے لئے بھاگ رہی تھی۔ ڈیلی میل میں شائع خبر کے مطابق ایک عورت جس کانام حمیدہ ہے کے حمل کے دن مکمل ہوگئی تھے اور ریاست راکھین کے گاؤ ں ماؤنگڈو میں جب اس پر فائیرئنگ کی جارہی تھی تب وہ اپنی جا ن بچانے کے لئے دوڑرہی تھی۔حمیدہ بھاگتے ہوئے جنگل میں پہنچ گئی جہاں پر اس کے ساتھ شوہر اور چھ بچے بھی تھے۔

جنگل میں48گھنٹوں کا وقت گذارنے کے بعد حمیدہ کو حمل کادرد شروع ہوگیاجسکی وجہہ سے اس نے بچے کو جنگل کی زمین پر ہی لیٹ گئی۔ تین گھنٹے بعد حمید ہ نے ایک لڑکے کو جنم دیا۔تاہم جب حمیدہ نے ملٹری کی آواز سنی تو اس نے دوڑنا شروع کردیا یہاں تک نومولود کو اس نے ناڑی سے بھی الگ نہیں کیاتھا۔وہ اس وقت تک دوڑتی رہی جب تو وہ خود کو محفوظ نہیں سمجھ لیتی۔

جب اس نے بالآخر کئی کیلومیٹر کی دوڑ کے بعد دوبارہ راحت کی سانس لی تب اس کے شوہر نے دولکڑیوں کی مدد سے اس کی ناڑی کو کاٹا۔

حمیدہ نے دوبارہ بحالی کے لئے تین روز مزید جنگل میں گذرے ۔دوبارہ صحت یابی کے بعد حمیدہ اور اس کے گھر والوں نے دوروز پیدل چلنے کے بعد بنگلہ دیش کی سرحد پہنچے۔ایک کشتی راں نے انہیں ناف ندی پار کرنے میں مدد کی۔اس نے حمیدہ اور اس کے گھر والو ں کو کھانا بھی دیا۔اس شخص کے گھر میں یہ لوگ دوروز رہے پھراس کے بعد گمڈام کے پناہ گزین کیمپ پہنچے۔

پناہ گزین کیمپ میں بھی ان کی حالت کچھ بہتر نہیں ہے۔ اس کا پندرہ دن کا بچہ بھوک سے تڑپ رہا ہے کیونکہ ماں دودھ پلانے سے قاصر ہے۔ اس کے دیگر بچے بھی بھوکے ہیں کیونکہ ان کے پاس کھانے کو نہیں ہے۔

جنگل کے گذرے دن کو یاد کرتے ہوئے حمیدہ نے کہاکہ’’ ہم لوگ زمین پر سوتے تھے‘ ہمارے پاس کھانے کو کچھ نہیں تھا اور بچے بھوک سے روتے اور بلکتے تھے‘‘۔ چار لاکھ ستر ہزار روہنگی بنگلہ دیش کے اندر شیلٹر کا انتظار کررہے ہیں۔

اقوام متحدہ کی خبر کے مطابق بنگلہ دیش کے پناہ گزین کیمپ میں چار لاکھ ستر ہزار لوگ شیلٹر کے لئے تر س رہے ہیں۔ میانمار فوج کے چوکیوں پر حملوں کے ردعمل کے طور پراگست25کے بعد سے میانمار کی راکھین ریاست میں فوجی تشدد کا شکار رہنگی اپنی جان بچانے کے لئے بنگلہ دیش کی سرحد میں داخل ہورہی ہیں۔