روہنگیا مسلمانوں کے بارے میں غلط اطلاعات اور پروپگنڈہ

میانمار کی فوج راکھین اسٹیٹ میں ہر ایک کی حفاظت کررہی ہے ، سیول لیڈر آنگ سان سوچی کا پہلی مرتبہ ردعمل

یانگون۔ 6 ستمبر (سیاست ڈاٹ کام) میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ سلوک کے بارے میں عالمی سطح پر برہمی کے دوران آنگ سان سوچی نے کہا کہ یہ سب غلط اطلاعات پر مبنی پروپگنڈہ ہے۔ ایسے وقت جبکہ اقوام متحدہ کی زیرقیادت عالمی سطح پر حکومت سے تشدد کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا جارہا ہے میانمار کی پہلی سیول لیڈر نے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ روہنگیا سے لاکھوں پناہ گزین بنگلہ دیش کی سرحد پر جمع ہوگئے۔ وہ میانمار کی سرکاری فوج اور بدھسٹ دہشت گردوں سے اپنی جان بچاکر یہاں پہنچے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ 25 اگست سے شروع ہوئے اس تشدد کے بعد تقریباً ایک لاکھ 46,000 روہنگیائی مسلمانوں کو بنگلہ دیش منتقل ہونے کیلئے مجبور ہونا پڑا۔ لاکھوں پناہ گزین اب بھی غذا کے بغیر پہاڑوں میں روپوش ہیں۔ وہ اپنی جان بچاکر یہاں پہنچ تو گئے لیکن انہیں بنگلہ دیش میں بھی داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے۔ آنگ سان سوچی حکومت کو پناہ گزینوں کے ساتھ فوج کے طرز عمل پر بین الاقوامی تنقیدوں کا سامنا ہے۔ فوج نے مظالم کی انتہا کردی اور ہر دن قتل، عصمت ریزی اور دیہاتوں کو جلا دینے کی اطلاعات سامنے آرہی ہیں۔ گزشتہ ماہ سے جاری اس تشدد کے بارے میں پہلی مرتبہ عوامی تبصرہ کرتے ہوئے آنگ سان سوچی نے کہا کہ روہنگیا مسلمانوں کیلئے ہمدردی مختلف غلط اطلاعات کی بنیاد پر پیدا ہوئی ہے۔

دو مختلف فرقوں کے مابین درپیش مسائل کا غلط اندازہ کیا جارہا ہے اور اس کا مقصد دہشت گردوں کے مفادات کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔ آنگ سان سوچی کا یہ بیان اس وقت جاری کیا گیا جب صدر ترکی رجب طیب اردغان نے ان سے فون پر ربط قائم کرتے ہوئے روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک کے خلاف صدائے احتجاج بلند کیا اور انہوں نے اس کارروائی کو ’’نسل کشی‘‘ قرار دیا تھا، لیکن آنگ سان سوچی نے حکومت کی کارروائیوں کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ان کا انتظامیہ راکھین اسٹیٹ سارے عوام کی حفاظت کررہا ہے۔ اس بیان میں ترکی کے نائب وزیراعظم محمود سسمیکھ کے گزشتہ ہفتہ ٹوئٹ اور پھر اسے حذف کردینے کا تذکرہ کیا گیا۔نائب وزیراعظم نے کئی تصاویر اپ لوڈ کی اور کہا تھا کہ یہ روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کی منہ بولتی تصویریں ہیں ، اس میں نعشیں دکھائی گئی تھیں۔ بعدازاں ان تصاویر کو غلط قرار دیتے ہوئے حذف کردیا گیا۔ میانمار کے روہنگیا مسلمان دنیا کی سب سے بڑی بے گھر اور بے زمین اقلیت ہیں۔ انہیں کئی طرح کی پابندیوں کا سامنا ہے اور وہ آزادی سے نقل و حرکت بھی نہیں کرسکتے ۔ وہ شہریت کیلئے کئی سال سے جدوجہد کررہے ہیں۔گزشتہ اکتوبر سے اب تک 2 لاکھ سے زائد روہنگیائی مسلمان بنگلہ دیش میں داخل ہوگئے ہیں اور یہ تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ آنگ سان سوچی جو نوبل امن انعام یافتہ ہیں، انہیں روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ فوجی مظالم پر تنقیدوں اور شدید دباؤ کا سامنا ہے۔