۔6 نعشوں کی اجتماعی تدفین، فوج اور بدھسٹوں نے ہمارے گاؤں جلادیئے اور ہمیں فرار ہونے پر مجبور کیا، متاثرین کی بپتا
کاکس بازار (بنگلہ دیش) 7 ستمبر (سیاست ڈاٹ کام) اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ میانمار کی فوج اور دہشت گردوں کے مابین لڑائی سے بچ کر گزشتہ پندرہ دن کے دوران تقریباً ایک لاکھ 64 ہزار روہنگیائی پناہ گزین بنگلہ دیش میں داخل ہوئے ہیں۔ اِن اعداد و شمار سے صاف ظاہر ہے کہ گزشتہ سال اکٹوبر میں لڑائی شروع ہونے کے بعد روہنگیائی مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد میانمار سے جاچکی ہے۔ اِس کے علاوہ اکٹوبر اور اگسٹ کے مابین مزید 87 ہزار پناہ گزین پہلے ہی بنگلہ دیش فرار ہوچکے تھے۔ اِس طرح بنگلہ دیش میں اب پناہ گزینوں کا ایک نیا بحران پیدا ہوگیا ہے۔ بنگلہ دیش میں آج اُن پانچ روہنگیائی مسلمانوں کی اجتماعی تدفین عمل میں آئی جنھیں میانمار میں گولی مار کر ہلاک کردیا گیا تھا۔ سرحد کے اُس پار عزیز و اقارب نے اِن نعشوں کو منتقل کیا اور نماز جنازہ میں ہزاروں افراد شریک تھے۔ اُنھیں ایک اور نعش کے ساتھ اجتماعی قبر میں دفن کیا گیا جبکہ اِس چھٹے شخص کی موت کی وجہ بھی نہیں معلوم۔ مہلوکین کے عزیز و اقارب نے بتایا کہ وہ میانمار میں تدفین سے قاصر تھے اِس لئے اُنھیں نعشیں یہاں تک لانی پڑیں۔ بنگلہ دیشی حکمراں عوامی لیگ پارٹی کے مقامی لیڈر انور کمال نے بتایا کہ بنگلہ دیش سرحد پر میانمار کی فوج کی فائرنگ میں یہ پانچ افراد ہلاک ہوئے۔ گزشتہ ہفتے بھی بارڈر گارڈس نے روہنگیائی جوڑے کی تدفین کی اجازت دی تھی جہاں خاتون کو عصمت ریزی کے بعد قتل کیا گیا اور اُس کے شوہر کو بھی ہلاک کردیا گیا تھا۔ میانمار نے ایک ملین سے زائد روہنگیائی باشندوں کو شہریت دینے سے انکار کیا ہے اور اِس بدھسٹ ملک میں اُن پر سخت پابندیاں عائد ہیں۔ میانمار میں اپنا سب کچھ لٹا کر بنگلہ دیش میں پناہ لینے والے 20 روہنگیا مسلمانوں اور ہندوؤں نے بتایا کہ ان کے گاؤں میں سب سے پہلے فوجی جوانوں نے اندھادھند فائرنگ کی، اس کے بعد سپاہیوں کے ساتھ شہریوں نے بستی میں آگ لگادی اور لوٹ مار کرتے ہوئے سب کچھ تباہ کردیا۔ بنگلہ دیش میں پناہ لینے والے 20 مسلمانوں اور ہندوؤں نے انٹرویو دیا، جس میں انہوں نے میانمار میں فوجی جوانوں اور بدھسٹ شہریوں کے ہاتھوں اپنے گاؤں کی تباہی کی کہانی سنائی۔
انہوں نے بتایا کہ کس طرح میانمار کے صوبہ رکھین میں کھا ماؤنگ سیک گاؤں کو فوج نے گزشتہ 25 اگست کو اندھا دھند فائرنگ کی، جس کی وجہ سے وہ اپنے گاؤں چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور ہوئے ۔ عادل حسین (55) نے بتایا کہ فوج نے اپنے ساتھ رکھین بدھسٹ شہریوں کو بھی لاکر اُن کی مدد سے پورے گاؤں کو جلا دیا۔ گاؤں کے تمام دس ہزار مسلم باشندے مجبور ہوکر گاؤں سے فرار ہوئے ، جن میں سے بہت سارے لوگوں کو گولی ماردی گئی اور باقی لوگ کسی طرح جان بچا کر یہاں پہنچے ۔ گاؤں میں اب ایک بھی شخص زندہ باقی نہیں ہے ۔ یہ پناہ گزیں فی الحال کٹاپلونگ کے عارضی پناہ گزیں کیمپ میں رہ رہے ہیں، جہاں پہلے سے ہزاروں روہنگیا پناہ لئے ہوئے ہیں۔ گزشتہ 25 اگست سے میانمار میں تشدد کا شکار ہونے والے تقریباً ڈیڑھ لاکھ روہنگیا بنگلہ دیش آچکے ہیں۔ میانمار کے جنوبی صوبہ رکھین میں فوج کے تشدد میں ہزاروں لوگ مارے گئے ہیں، جہاں اراکین روہنگیا سلویشن آرمی کے جنگجو ؤں سے فوج کی جھڑپیں چل رہی ہیں۔صوبہ رکھین میں کھاماؤنگ سیک گاؤں اور اطراف کے درجنوں باشندوں سے بات کی، جو یہاں پناہ لئے ہوئے ہیں۔ان میں متعدد ہندو بھی ہیں، جن کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے ۔ روہنگیا تشدد کی دنیا بھر میں مذمت کی جارہی ہے لیکن اِس کے باوجود آن سان سوچی حکومت نے صورتحال پر قابو پانے کیلئے کوئی اقدامات نہیں کئے۔