80 فیصد شامی مسلمان بشارالاسد کے مخالف، روس کو روسی مسلمانوں کی مخالفت پر بھی غور کرنا چاہئے۔ وائیٹ ہاؤس پریس سکریٹری جوش ارنیٹ کی پریس کانفرنس
واشنگٹن 7 اکٹوبر (سیاست ڈاٹ کام) اب جبکہ شام میں روس نے اپنی فوجی کارروائیوں میں اضافہ کردیا ہے وہیں وائیٹ ہاؤس سے جاری ایک پیغام میں روس کو انتباہ دیا گیا ہے کہ وہ شام میں جاری امریکی مشن میں مداخلت نہ کرے کیوں کہ امریکہ کو دولت اسلامیہ جنگجوؤں کا صفایا کرنے کے لئے بین الاقوامی تائید حاصل ہے اور روس کی مداخلت حالات کو بگاڑ سکتی ہے۔ صدر امریکہ بارک اوباما نے بھی روس کو واضح طور پر انتباہ دیا ہے کہ 65 ممالک پر مشتمل فوجی اتحاد کے ذریعہ دولت اسلامیہ کو شام سے نکال باہر کرنے کے لئے جو کارروائی کی جارہی ہے وہ انتہائی مؤثر اور فیصلہ کن موڑ اختیار کرچکی ہے اور ایسے میں روس کا اس منظر نامہ میں شامل ہونا کوئی اچھی علامت نہیں۔ وائیٹ ہاؤس پریس سکریٹری جوش ارنیسٹ نے کل اخباری نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے یہ بات کہی۔ اُنھوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہاکہ اس سلسلہ میں اگر ہمیں روس کی فوجی مداخلت کو روکنا ہے تو دونوں ممالک کی افواج کے درمیان کم سے کم ایک بار تبادلہ خیال ضرور ہونا چاہئے۔ روس نے کئی ایسے مقامات پر فضائی حملے کئے ہیں جہاں دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں کی تعداد یا تو بالکل نہیں کے برابر ہے یا پھر انتہائی قلیل اور اُس پر طرہ یہ کہ روس یہ ادعا کررہا ہے کہ اُس کی تمام تر توجہ دولت اسلامیہ پر مرکوز ہے۔ مسٹر ارنیسٹ نے کہاکہ روسی بھی یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ ملک کے داخلی حالات اُسی وقت بحال ہوسکتے ہیں جب اقتدار کی تبدیلی عمل میں آئے گی لیکن روس بھی ایک ایسے حکمراں (بشارالاسد) کی تائید کررہا ہے جسے ملک شام پر حکومت کرنے کا کوئی اخلاقی حق باقی نہیں رہا جس کی کئی وجوہات ہیں۔ ارنیسٹ نے دعویٰ کیاکہ آج صورتحال یہ ہے کہ بشارالاسد نے شام میں حکمرانی کا اخلاقی حق بھی کھودیا ہے۔ مزید برآں انھیں 80 فیصد عوام کی بھی تائید حاصل نہیں۔
اگر روس نے بشارالاسد کی تائید جاری رکھتے ہوئے اپنی اسی حکمت عملی کو بھی جاری رکھا تو یہ بات یقینی طور پر کہی جاسکتی ہے کہ عالمی سطح پر روس یکا و تنہا ہوسکتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ شام کے مسلم عوام کے علاوہ روسی مسلمان بھی روس کے مخالف ہوسکتے ہیں کیوں کہ ایک ایسے حکمراں کی تائید کرنا جیسے عوامی تائید حاصل نہیں، عوام کے غیض و غضب کو دعوت دے سکتا ہے۔ دوسری طرف امریکہ حسب معمول اپنی تمام تر توجہ دولت اسلامیہ کے خاتمہ کی جانب مرکوز کئے ہوئے ہے۔ ہم نے (امریکہ) ایسی جنگی حکمت عملی تیار کی ہے جس کی وجہ سے دولت اسلامیہ کے بیشتر جنگجوؤں نے میدان چھوڑ دیا ہے اور اگر اس جنگی حکمت عملی کو جاری رکھا گیا تو دولت اسلامیہ کا صفایا یقینی ہے۔ افغانستان کے بارے میں بات کرتے ہوئے جوش ارنیسٹ نے کہاکہ اوباما نے قبل ازیں افغانستان میں امریکی افواج کی کچھ تعداد کو مستقل طور پر تعینات رکھنے کی جو بات کہی تھی، اس حکمت عملی پر اُسی وقت عمل آوری ہوگی جب افغانستان جیسے جنگ زدہ ملک میں زمینی حقائق اور صورت حال کی مکمل طور پر معلومات حاصل کی جائے۔ اس کے علاوہ بھی دیگر کچھ پہلوؤں پر غور و خوض کیا جائے گا اور اس کے بعد ہی افغانستان میں امریکی افواج کی موجودگی کے بارے میں کوئی قطعی فیصلہ متوقع ہے۔