رواش کمار ۔ایک اسٹوری پر سوکروڑ کے جرمانے کا نوٹس۔ویڈیو

این ڈی ٹی وی کے مشہور شو پرائم ٹائم کے دوران ممتاز صحافی رواش کمار نے کہاکہ ایک اسٹوری پر سو کروڑ کے جرمانے کا نوٹس دراصل سو کروڑ کی دھمکی ہے۔ہتک عزت کو نوٹس ان دنوں ایک ہتھیار بن گیا ہے‘کارپوریٹ شعبہ کی جانب سے پہلے بھی اس طرح کاکام او رنوٹس بھیجی جاتی تھی مگر اب دی وائیر نامی ویب سائیڈ کی ایک اسٹوری جو ہندی او رانگریزی دونوں میں شائع ہوئی ‘ روہنی سنگھ کی اس رپورٹ اور میڈیا اور سیاست حلقوں میں مانو دھوم مچادی‘ جہاں پر اس رپورٹ نے کارپوریٹ شعبہ اور سیاست کا پردہ فاش بھی کیاہے ۔

دراصل یہ معاملے جئے امیت بھائی شاہ جو بی جے پی صدر امیت شا ہ کے بیٹے ہیں ان کی کمپنی کامعاملہ ہے ۔ جئے شاہ نے دی وائیرکو سو کروڑ کے ہرجانہ کا نوٹس بھیجا ہے۔رپورٹر روہنی سنگھ کے بشمول دی وائیر تقریباً ٹیم کے خلاف یہ نوٹس جاری کیاگیا ہے۔ویب سائیڈ کی اسٹوری میں دعوی کیاگیا ہے مودی سرکار کے برسراقتدار آنے کے بعد جئے شاہ کی کمپنی کا لین دین سو ہزار گنا اضافہ ہوگیا۔جس کے بعد مذکورہ کمپنی 2016میں بند ہوگئی۔سولہ ہزار گنا سن کرکے آپ کو لگ سکتا ہے کہ یہ معاملے کئی لاکھ کروڑ کا ہوگا مگر یہ چند ہزار سے 80کروڑ کے لین دین کا معاملہ ہی ہے۔

دی وائیر اپنے اسٹور ی پر اب بھی قائم ہے اور نوٹس جاری ہونے کے بعد بھی انگریزی سے اس اسٹوری کاہند ی ترجمہ شائع کیا گیا ہے۔ اسٹوری کی صفائی میں جئے شاہ کا کہنا ہے کہ انہو ں نے کوئی ہیرا پھیری نہیں کی۔جئے شاہ نے اتوارکے روز اپنی صفائی پیش کی۔جس کو دی وائیرنے ہندی او رانگریزی دونوں میں شائع کیاہے۔ روہنی سنگھ کی اسٹوری میں جئے شاہ کے وکیل کا بیان بھی ہے ۔ کارپوریٹ لین کو سمجھنے والے اس اسٹوری پر اپنے انداز میں تبصرہ کررہے ہیں۔

https://www.youtube.com/watch?v=Y7-GpFL4w_s

دی وائیر کے علاوہ اوپی انڈیا کے ایک ویب سائیڈ پر آر جگناتھن نے لکھا ہے کہ اسٹوری صحیح نہیں ہے اس میں کئی کمزوریاں ہیں۔ اگر آپ کو سمجھنا ہے تو دونوں اسٹوری پڑھیں۔ ایک معاملہ غیر محفوظ قرض کا بھی ہے جس کے متعلق قرض دینے والی کمپنی نے اپنے انکم ٹیکس ریٹرنس میں جس کا ذکر نہیں کیاہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کمپنی کے اکاونٹ سے قرض دی دیں اور اس کا کہیں پر بھی ذکر نہیں کریں۔ مگر بی جے پی اور جئے شاہ کا کہنا ہے کہ جو قرض لیاگیا ہے اسے سود کے ساتھ ادا بھی کردیاگیاہے۔

سب سے بڑا سوال تو یہ ہے کہ قرض کس طرح دیاگیاہے۔ دی وائیر کی اس اسٹوری کی باریکیو ں کو سمجھنے سے ہم تو قاصر ہیں۔مگر ہمارا ماننا یہ ہے کہ اسٹوری کا مطالعہ کریں او رگوگل پر سرچ کریں اور مطالعہ کرتے رہیں۔ اس اسٹوری کے شائع ہونے کے ساتھ ہی صحافی روہنی سنگھ کے کردار پر بھی حملے شروع ہوگئے۔مختلف ناموں سے سوشیل میڈیا میں ایک ہی وضع کے پیغامات کا سلسلہ شروع ہوگیا ۔

پتہ نہیںیہ کہا ں پر بیٹھ کر یہ پیغامات تیار کئے جاتے ہیں۔ایک طرح کے پیغام کو الگ الگ نام سے کیسے ٹائپ کیاگیا ہوگا یہ بات قابل غور ہے۔کیا کوئی خفیہ ٹھکانہ ہے جہاں سے یہ سارے پیغامات ٹائپ ہوکر سوشیل میڈیا کے پلیٹ فارم پر پہنچائے جاتے ہیں۔ یاپھر ایسا کوئی پیغام دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اگر آپ کسی طاقتور کے خلاف میں رپورٹ شائع کی تو ہم تمہارا یہی حال کریں گے۔ اگر آپ غلطی سے عورت یالڑکی ہیں تو آپ کو بدنام کیاجائے گا۔

ایک او رپہلو اس معاملے میں سامنے آیا ہے کہ ایڈیشنل سالیسٹر جنرل توشار مہتا نے جئے مہتا کامقدمہ لڑنے کی حکومت سے اجازت مانگی ہے جنھیں6اکٹوبر کے روز ہی اجازت مل گئی ۔ مگرہمیںیہ سمجھ میں نہیںآرہا ہے کہ اسٹوری 8اکٹوبر کو شائع ہوئی جبکہ دوروز قبل ہی انہیں مقدمہ لڑنے کی اجازت کس طرح مل گئی ۔ غیرکوئی بات نہیں اے ایس جی کو یہ اختیار ہے وہ کسی کا بھی مقدمہ لڑسکتے ہیں۔

سپریم کورٹ کے مشہور وکیل پرشانت بھوشن نے توشار مہتا سے کہاکہ وہ عدالت میں اجائیں بہت سارے سوالات کے جواب طلب کرنا ہے۔اس معاملے کو ایک تیسر ا پہلو بھی ہے جب اتوارکے روز کانگریس لیڈر کپل سبل جب اس معاملے میں پریس کانفرنس کے لئے ائے تو کئی چیانلوں نے ان کی پریس کانفرنس کو راست نشر نہیں کیا۔ او رشائد بعد میں بھی کئی چیانلو ں نے نہیں بھی دیکھا۔اس پورے معاملے پر دہلی سے لیکر بہار تک کے سیاسی حلقوں میں ہلچل مچ گئی ہے۔