راہول گاندھی کے اعلان پر اہم شخصیات کا ردعمل۔ سرکاری دفاتر سے آر ایس ایس کو کیسے ہٹائے گی کانگریس؟۔

جسٹس سہیل اعجاز صدیقی ‘ شاہد صدیقی اور شاعر منظربھوپالی نے کہاکہ‘کانگریس کا اعلان اچھا ہے‘ لیکن عام انتخابات 2019کے بعد معلوم ہوپائے گا کہ قول وعمل میں کیافرق ہے؟

نئی دہلی۔ آل انڈیا کانگریس کمیٹی اقلیتی شعبہ کی جانب سے 30سال بعد جواہر لعل نہرو انڈوراسٹیڈیم میں منعقدہ قومی اقلیتی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کانگریس صدر راہول گاندھی نے اعلان کیا ہے کہ وہ کانگریس حکومت میں سرکاری دفتروں سے آر ایس ایس کے ورکروں ‘ کارکنوں کو نکال باہر کریں گے‘

چنانچہ راہول گاندھی کے اس بیباک بیان کا جہاں ملت اسلامیہ ہند کے دانشوار طبقہ میں خیرمقدم ہورہا ہے وہیں کچھ بنیادی سوال بھی کانگریس کے تعلق سے اٹھائے جارہے ہیں۔

جسٹس سہیل اعجاز صدیقی ‘ سابق رکن پارلیمنٹ اور معروف صحافی شاہد صدیقی او رمعروف ادیب وشاعر منظر بھوپالی نے انقلاب بیوور سے بات کرتے ہوئے راہول گاندھی کے بیان پر اپنا ردعمل ظاہر کیاہے ۔

جسٹس صدیقی نے کہاکہ راہول گاندھی کی نیت پر ہمیں شک نہیں ہے لیکن آر ایس ایس کو سرکاری دفتر وں سے نکال پانا آسان نہیں ہے۔

انہوں نے کہاکہ آر ایس ایس حکومت او رسماج میں زہر کی طرح پھیل چکی ہے چنانچہ اس زہر کو ختم کرنے کے لئے وقت کی ضرورت ہے ۔

انہوں نے کہاکہ آج کی تاریخ میں زندی کے ہر شعبہ میںآر ایس ایس شامل ہوچکی ہے۔جسٹس صدیقی نے کہاکہ راہول گاندھی جس طرح چل رہے ہیں وہ بالکل درست ہے ۔

انہو ں نے کہاکہ بی جے پی صرف نعرہ دیاتھا لیکن کانگریس کو سب کا ساتھ سب کا وکاس کے تحت ایمانداری سے کام کرنا چاہئے۔انہو ں نے کہاکہ جمہوریت مضبوط او رمستحکم کرنا کانگریس کی ذمہ داری ہے ۔

شاہد صدیقی نے کہاکہ اس وقت آر ایس ایس جڑوں تک پہنچ چکی ہے۔

انہو ں نے کہاکہ بات صرف راجستھان ‘ مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ کی نہیں بلکہ پورے ملک کی ہے۔ انہوں نے کہاکہ راہول گاندھی نے اعلان ضرور کیاہے لیکن میں نہیں سمجھتا کہ یہ کام اتنا آسان ہے ۔

ایک سوال کا جواب میں انہو ں نے کہاکہ یہ بات راہول گاندھی نے واضح کردی ہے کہ ان کی لڑائی نریندر مودی سے نہیں بلکہ آر ایس ایس کے نظریہ سے ہے‘ وہ کسی شخص کے خلاف میدان میں نہیں ہیں بلکہ ایک خاص نظریہ کے خلاف ہیں۔

راہول گاندھی نے جو اعلان کیا ہے وہ قابل ستائش ہے لیکن اس کے لئے حکمت عملی کی ضرورت ہے‘صاف ذہن اور مضبوط دل کی ضرورت ہے کیونکہ اس کے بغیر یہ کام ممکن نہیں ہے۔

کیاراہول گاندھی کے اس بیان کے بعد یہ لگتا ہے کہ کانگریس نرم ہندوتوا کی طرف جارہی ہے ؟اس سوال پر مسٹر صدیقی نے کہاکہ مجھے نہیں لگتا کہ کانگریس نرم ہندوتوا کی طرف جارہی ہے ۔

یہ کانگریس ‘ راہول گاندھی او رپرینکا گاندھی کی سیاسی حکمت عملی تو ہوسکتی ہے لیکن وہ آر ایس ایس کے نظریہ پرچلنے جارہے ہیںیہ ٹھیک نہیں ہے۔

راہول گاندھی اور پرینکا گاندھی کی جنگ ہی پوری نظریاتی ہے تو پھر یہ اس نظریہ پر کیسے جاسکتے ہیں؟۔اگر کانگریس ہندوتوا کی طرف جائے تو وہ کانگریس کہاں رہے گی؟

او رجب کانگریس نہیں رہے گی تو پھر راہول گاندھی اور پرینکا گاندھی سیاست کس کی کریں گے؟۔منظر بھوپالی نے کہاکہ 2019کے عام انتخابات تک تو کانگریس مدھیہ پردیش میں کچھ بھی نہیں کرے گی۔

انہو ں نے کہاکہ وندے ماترم ختم کرنے کااعلان کیالیکن جب زبردست مخالفت ہوئی تو اوراچھے ڈھنگ سے وہ ہونے لگا۔

گائے کے نام پر بجٹ بڑھ گی اپ مدھیہ پردیش میں یا تو بی جے پی ہے یا پھر کانگریس ‘ اس لئے جو لوگ کانگریس سے ناراض ہوتے ہیں وہ بی جے پی ووٹ دیتے ہیں او رجو بی جے پی سے ناراض ہیں وہ کانگریس کوووٹ دیتے ہیں ‘ جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے تو اٹھ فیصد ہیں جن کی یہاں کسی کو ضرورت نہیں ہے۔

ہمیں ابھی انتظار کرنا چاہئے کیونکہ جو بھی ہوگا وہ 2019کے بعد ہی ہوگا۔واضح رہے کہ گذشتہ 7فبروری کو صدر کانگریس اقلیتی شعبہ ندیم جاوید کی قیادت میں قومی اقلیتی کانفرنس کا انعقاد کیاگیاتھا جس میں مذکورہ بالا اعلان کیاگیاتھا۔