دہلی میں اکبر روڈ پر واقع کانگریس کے دفتر میں ہفتے کے روز راہل گاندھی نے کانگریس کی صدارت سنبھالی تو ان کی والدہ کافی جذباتی نظر آرہی تھیں۔ ظاہر ہے کہ کسی بھی ماں کے لئے یہ بات باعث افتخار ہوگی کہ اس کا بیٹا کوئی اہم ذمہ داری نبھانے والا ہے۔
سونیا گاندھی سے صدارت راہل کو منتقل ہونے میں کوئی رکاوٹ سامنے نہیں ائی او رنہ ہی کسی بڑے کانگریسی یا اہم پارٹی ممبر نے راہل کو صدر منتخب کئے جانے پر کوئی اعتراض جتایا ‘ جسسے معلوم پڑتا ہے کہ کانگریس میںآج بھی نہروخاندان کا دبدبہ اور وقار قائم ہے۔کانگریس والو ں نے تو اپنا فرض ادا ادا کردیا‘ اب باقی کام اس ملک کے عوام کو کرنا ہے‘ وہ راہل گاندھی کو اپنا لیڈر تسلیم کرتے ہیںیا نہیں ‘یہ تو وقت ہی بتائے گا‘ فی الحال تو راہل گاندھی نے یہ بات ثابت کردی ہے کہ پورے ملک میں اگر نریندر مودی کے مقابلے میں کوئی چہرہ ٹہر سکتا ہے تو وہ راہول گاندھی کا ہی ہے۔
بی جے پی والو ں نے جس عیاری کے ساتھ راہل کو پپو ثابت کرنے کی کوشش کی تھی اس میں وہ لوگ کامیاب نہیں ہوسکے او راہول نے بی جے پی والوں کی نیندیں کافی حد تک خراب کیں۔خاص طور پر گجرات کے الیکشن میں جس طر ح راہول نے اپنی سیاسی سوجھ بوجھ کا مظاہرہ کیا ہے اس سے بی جے پی کے بڑے بڑے سورما اتنا پردیشان ہوگئے تھے کہ پوری مرکزی کابینہ کو گجرات میں ڈیرہ ڈالنا پڑا۔کانگریس وہاں ہارے یاجیتے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا‘ لیکن راہول گاندھی نے ملک کے سیاسی منظر نامے پر اپنے دستخط بہت گہری روشنائی سے کرکے یہ بتادیاہے کہ بی جے پی والے ان کو بہت ہلکے میں لینے کی حماقت نہ کریں ۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ راہل کی ذاتی کامیابی یا ان کی شخصیت کا جادوکام کرنے والا نہیں ہے۔
کانگریس اگر اپنی پرانی پالیسیوں پر قائم نہیں رہے گی اور اگر سکیولرزم کے اصولوں سے بھٹکے گی تو ایک راہل کیادس راہل بھی کانگریس کا بیڑھ پار نہیں کرسکیں گے ۔ کانگریس کو اپنا پرانا وقار اور قدیم مقبولیت اسی وقت ملے گی جب وہ فرقہ پرست طاقتوں سے لڑنے میں کوتاہی نہیں برتے گی او رفسطائیت کو نظر انداز نہیں کرے گی۔ کانگریس صدر چاہے کتنے مندروں میں جائیں‘ لیکن وہ اس کو اپنی ذاتی زندگی تک محدو د رکھیں تو بہتر ہوگا۔
کھلے عام یہ کہنا کہ میں شیو بھگت ہوں ‘ میں جنیودھاری ہندو یا میرا پورا خانوادہ شیو بھگت ہے یہ بات کانگریس کو زیب نہیں دیتی او راہول گاندھی مجھ سے زیادہ بہتر انداز میں اس بات کو سمجھ سکتے ہیں کہ جب کانگریس اپنے اصولوں سے بھٹکی ہے اب بھی کانگریس نے سستی مقبولیت حاصل کرنے کیلئے دھرم کا کارڈ کھیلا ہے اس کو کامیابی کے بجائے تذلیل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ کانگریس نے جب جب گلشن میں کمل کے پھول کھلانے کی کوشش کی ہے اس کے گلستاں کے دوسرے پھولوں کی رنگت اڑی ہے۔
کانگریس کو کبھی ٹھنڈے دل سے یہ بات سوچنا پڑے گی کہ آخر اس ملک کے سکیولر عوام کو تیسرا مورچہ بنانے کی ضرورت کیوں پڑی؟کیوں انہو ں نے کانگریس او ربی جے پی کو ایک پلہ میں رکھنا شروع کردیاتھا؟ کیوں ملک کی سب سے بڑی اقلیت اس کا ہاتھ چھوڑ کر کبھی سائیکل او رکبھی ہاتھی کی سواری کرنے پر مجبور ہوئی : راہل گاندھی اب کانگریس کے سیاہ سفید کے مالک ہیں۔
اب ان کے کاندھوں پر گرانڈ اولڈپارٹی کا درجہ رکھنے والی کانگریس کا بوجھ ہے او رخود کانگریس کے کاندھوں پر بہت سے ایسے لو گ سوار ہیں جو گلے گلے بدعنوانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ بہت سے ایسے افراد کانگریس میں گھسے ہوئے ہیں جن کے دامن پر ہی نہیں چہرے بھی بدنما داغ ہیں۔
ایسے تمام لوگوں سے پارٹی کو کنارہ کرنا ہی پڑے گا۔ ہم جانتے ہیں کہ راہل گاندھی او ران کی والدہ بہت ایماندار ہیں۔ ان پر بدعنوانی کے جھوٹے مقدمے محض سیاسی دشمنی میں قائم کئے گئے ہیں لیکن خود راہل گاندھی اس بات سے انکار نہیں کرسکتے کہ کانگریس کو گھلے بازوں او رگھوٹالا کرنے والوں نے بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔
لہذا ان کو ایک نئے سر سے اپنی ٹیم چننا ہوگی او رسب سے بہتر تو یہ ہوگا کہ اگر وہ اپنی بہن کو بھی سیاست میں لاسکیں تو کانگریس میں ایک نئی جان پڑجائے گی