غیرمسلم آبادی خود کو مسلح کررہی ہے، آنگ سان سوچی کیلئے سب سے بڑا چیلنج
کوکس بازار (بنگلہ دیش) 28 اگست (سیاست ڈاٹ کام) میانمار کے شمال مغربی صوبہ رکھین میں گزشتہ پانچ برسوں میں سخت ترین لڑائی چھڑ گئی ہے ، جہاں گزشتہ جمعہ سے اب تک 104 افراد ہلاک ہوئے ہیں اور ہزاروں خوفزدہ شہریوں کو لڑائی سے فرار ہونے پر مجبور ہونا پڑا ہے ، جبکہ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی امدادی ایجنسیوں کو اپنا عملہ واپس بلانا پڑا ہے ۔ راکھین میں روہنگیا باغی گروپوں نے جمعہ کے روز 30 پولس چوکیوں اور ایک فوجی کیمپ پر حملے کئے تھے ، جس کے بعد وسیع پیمانے پر پرتشدد جھڑپیں شروع ہوگئی ہیں، جس سے خوفزدہ شہریوں کو علاقے سے فرار ہونا پڑر ہا ہے ۔ گزشتہ سال اکتوبر سے میانمار کے شمال مغربی صوبہ راکھین میں فوج کی وحشیانہ کارروائی کے بعد سے کشیدگی برقرار ہے ، جس میں گزشتہ جمعہ کے حملے کے بعد اچانک اضافہ ہوگیا۔بدھسٹوں کی اکثریت والے ملک میانمار کے شمال مغربی صوبہ راکھین میں گیارہ لاکھ روہنگیائی مسلمانوں کے مسئلے سے نمٹنا ملک کی نوبل امن انعام یافتہ لیڈر آنگ سان سوچی کے لئے سب سے بڑا چیلنج بن گیا ہے ، جنہوں نے روہنگیا باغیوں کے حملے کی مذمت کی ہے اور سلامتی دستہ کی کارروائی کی ستائش کی ہے ۔ مغربی ناقدین کی طرف سے انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے کہ وہ طویل عرصہ سے ظلم و تشدد کے شکار روہنگیائی مسلمانوں کے مسئلے پر کھل کر نہیں بول رہی ہیں اور وہ صرف فوج کے جوابی تشدد کا دفاع کررہی ہیں۔ روہنگیا آبادی کے ہزار وں افراد کو جن میں بیشتر خواتین اور بچے ہیں، بنگلہ دیش اور میانمار کو الگ کرنے والی ندی کو پار کرتے ہوئے اور زمینی راستہ سے فرار ہوتے دیکھا گیا ہے ، جو تشدد سے جان بچا کر بنگلہ دیش کی طرف بھاگنے کی کوشش کررہے ہیں۔دوسری طرف بنگلہ دیش میں پہلے سے موجود روہنگیائی پناہ گزینوں نے کہا کہ بنگلہ دیشی پولس نے انہیں نئے پناہ گزینوں کو آنے میں مدد نہیں کرنے کی تنبیہ کی ہے ، اگر کسی نے بھی نئے لوگوں کو آنے دیا تو اس کو گرفتار کرکے سرحد پار بھیج دیا جائے گا۔پناہ گزینوں کے مطابق اس طرح کی وارننگ کے باوجود جمعہ سے اب تک سرحد پر تقریبا 2 ہزار لوگ بنگلہ دیش میں داخل ہوئے ہیں ۔ ہفتہ اور اتوار کو دونوں ملکوں کے درمیان غیر مقبوضہ علاقے میں درجنوں رہنگیا خواتین کو بے یارو مدد گار دیکھا گیا ہے ، جب میانمار کی جانب سے شدید فائرنگ کی آوازیں سنی گئی تھیں۔دریں اثناء، میانمار میں اقوام متحدہ اور دیگر عالمی امدادی ایجنسیو ں نے اپنے عملہ کو شورش زدہ علاقے سے واپس بلالیا ہے ۔راکھین صوبہ کے وزیر اعلی نئی پو نے بتایا کہ حکومت کی طرف سے بیرونی امدادی کارکنوں کو سکیورٹی فراہم کی گئی ہے ، لیگن اس طرح کی پرتشدد صورتحال میں کسی مکمل سلامتی کی ضمانت نہیں دی جاسکتی ہے ۔ ہماری طرف سے ہر ممکن سکیورٹی فراہم کی جائے گی ، لیکن اگر کوئی علاقے سے باہر نکل جانا چاہتے ہیں، تو ہم ان کی مدد کریں گے ۔باغیوں کے حملے کے پیش نظر شمالی راکھین میں غیر مسلم آبادی والے گاؤں سے لوگوں کو خالی کرایا جارہا ہے ، جہاں مقامی غیر مسلم آبادی کے لوگ اپنی حفاظت کے لئے خود کو تلواروں اور چاقوؤں سے مسلح کررہے ہیں، جنہیں گاؤں سے د وسرے بڑے شہروں کی طرف منتقل کیا جارہا ہے ۔ باغیوں کی طرف سے ایک بیان میں حکومت کے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا گیا ہے ۔ آج جاری ہونے والے بیان میں روہنگیا گروپ نے کہا کہ وہ کسی طرح کے تشدد میں ملوث نہیں ہے ، بلکہ وہ روہنگیا آبادی کے حقوق کا دفاع کے لئے کارروائی کررہے ہیں۔