بعض ممالک کے غیر ذمہ دارانہ غیر مصدقہ ریمارکس اور الزامات مسترد، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں مائنمار کے سفیر کا جواب
اقوام متحدہ 26 ستمبر (سیاست ڈاٹ کام) اقوام متحدہ میں مائنمار کے سفیر نے آج اصرار کیاکہ ان کے ملک میں مسلمانوں کے خلاف نسل کشی یا قتل عام نہیں کیا جارہا ہے اور اُنھوں نے ان ممالک سے سخت ترین اعتراض کا اظہار کیا جو ریاست راکھئین کی صورتحال کے ضمن میں ان الفاظ کا استعمال کررہے ہیں۔ جنرل اسمبلی میں عالمی قائدین کے چھ روزہ اجتماع کے اختتام کے موقع پر ہوا دو سوان نے بقول ان کے ان ’’غیر ذمہ دارانہ ریمارک‘ پر وضاحت کے لئے اپنا ’حقِ جواب‘ استعمال کیا جن کے ذریعہ 193 رکنی عالمی ادارہ میں ان ممالک کے نمائندوں نے اپنی تقاریر کے دوران بار بار بے بنیاد الزامات عائد کررہے ہیں۔ تاہم انھوں نے اگرچہ ان میں سے کسی بھی ملک کی نشاندہی تو نہیں کی لیکن اکثر ممالک کے مندوبین نے ان 4,20,000 روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار کے بارے میں خطاب کیا تھا، سکیورٹی فورسیس پر روہنگیا تخریب کاروں کے حملے کے بعد فوجی کارروائیوں اور اکثریتی بدھسٹوں کے جوابی حملوں کے سبب 25 اگسٹ سے ڈھائے جانے والے مظالم سے بچنے کے لئے 4,20,000 روہنگیا مسلمان ملک چھوڑ کر فرار ہوتے ہوئے بنگلہ دیش میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے تھے۔ جس کے بعد یہ صورتحال پیدا ہوئی ہے۔ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل اینٹونیو گوتریس، اقوام متحدہ میں انسانی حقوق ادارہ کے سربراہ زید رعد الحسین، بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ کے علاوہ بشمول متحدہ عرب امارات متعدد مسلم ممالک کے نمائندوں نے مائنمار پر خود کو روہنگیا مسلمانوں سے چھٹکارہ حاصل کرنے کی کوششوں میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا تھا۔
تاہم مائنمار کے سفیر سوان نے ان کے اس دعویٰ کی تردید کی ہے۔ انھوں نے کہاکہ ’’کوئی نسل کشی نہیں کی جارہی ہے۔ کوئی قتل عام نہیں کیا جارہا ہے۔ مائنمار کے قائدین ایک طویل عرصہ سے انسانی حقوق و آزادی کے لئے جدوجہد کررہے ہیں اور وہ اس قسم کی پالیسی اختیار نہیں کریں گے۔ ہم اس قسم کی نسل کشی و قتل عام کو روکنے کی ممکنہ کوشش کریں گے‘‘۔ اُنھوں نے ریاست راکھئین کے مسئلہ کو انتہائی پیچیدہ قرار دیتے ہوئے اقوام متحدہ کے تمام رکن ممالک اور بین الاقوامی برادری سے کہاکہ شمالی راکھئین کی صورتحال کو وہ بامقصد اور غیر جانبدار انداز میں دیکھیں‘‘۔ اُنھوں نے تخریب کار تنظیم ’’اراکان روہنگیا نجات دہندہ فوج‘‘ (آرسا) کے ابتدائی حملوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ ’’ہر حکومت کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جدوجہد کے ساتھ بے قصور شہریوں کی حفاظت کرے‘‘۔
مائنمار کے سفیر نے کہاکہ روہنگیا مسلمانوں کے بڑے پیمانے پر انخلاء کی کئی وجوہات ہیں اور ان میں سب سے اہم ان میں خوف کا عنصر ہے جو 25 اگسٹ کے تخریب کار حملوں اور مابعد فوج کی کارروائیوں سے پیدا ہوا ہے‘‘۔ اُنھوں نے کہاکہ اکثر عورتوں اور بچوں کو فرار ہونے کے لئے مجبور کیا جارہا ہے کیونکہ روہنگیا مرد مائنمار سکیورٹی فورسیس سے لڑنے کے لئے تخریب کار تنظیم ’آرسا‘ سے ساز باز کررہے ہیں۔ تاہم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ وہ مائنمار فوج کی طرف سے چلائی جانے والی آتشزنی کی منظم ہم کے ثبوت پیش کرچکی ہے۔ مائنمار سکیورٹی فورسیس کی طرف سے درجنوں روہنگیا دیہات نذر آتش کئے جارہے ہیں۔ انسانی حقوق گروپس ان مقامات کے ویڈیوز، سیٹلائیٹ تصاویر، چشم دید گواہوں کے بیانات پیش کئے ہیں جن میں راکھئین میں روہنگیا مسلمانوں پر کئے جانے والے تازہ ترین تشدد اور مظالم کا واضح ثبوت ہے۔ جمعہ کو پیش آئے تازہ ترین تشدد میں راکھئین کے کئی مسلم علاقوں سے دھواں اُٹھتا ہوا دیکھا گیا ہے جس کی سیٹلائیٹ تصاویر اور ویڈیوز منظر عام پر آچکے ہیں۔
تصویر کی آڑ میں چھپنے کا ہندوستان پر پاکستان کا جوابی الزام
اقوام متحدہ ۔ /26 ستمبر (سیاست ڈاٹ کام)اقوام متحدہ نے پاکستان کے مستقل سفارتخانے کے مشیر ٹیپو عثمان نے ٹوئیٹر پر اپنے نام اور پتے کی جزوی اشاعت کے ساتھ ہی کہا کہ ہندوستان اپنے جنگی جرائم کو جو اس میں مقبوضہ کشمیر میں کئے ہیں ایک تصویر کے پیچھے چھپا نہیں سکتا ۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ ہندوستان ایک تصویر کے پیچھے چھپنے کی کوشش کررہا ہے ۔ بعد ازاں پاکستان کے اس بیان کو ہندوستان کی جانب سے جھوٹ قرار دیا گیا ۔