منشی کا اصلی نام محمد عبدالکریم تھا ۔اس کی پیدائش ۱۸۶۳ ء جھانسی میں ایک مسلم گھرانہ میں ہوئی۔منشی عبدالکریم کے والد محمد وزیر الدین سنٹرل ہارس ہاسپٹل کے اسسٹنٹ تھے۔عبدالکریم کو ایک بھائی محمد عبدالعزیز اور چار بہنیں تھیں۔ عبدالکریم کی دو شادیاں ہوئی تھیں۔ اسے کوئی اولاد نہیں تھیں۔ ۱۸۸۶ ء میں کنگسٹن میں کوئین وکٹوریہ نے جب ایک نمائش کا دورہ کیا تو کوئین نے ٹیلر جان سے خواہش کی کہ اسے ہندوستانی دو خادم چاہئے ۔تب عبدالکریم کو شاہی خادم کے طور پر کوئین کے محل لندن بھیجا گیا۔عبدالکریم پہلے سے انگریزوں کے عادات و اطوار سے بخوبی واقف تھا۔
عبدالکریم کوئین کی بہت خدمت کرتا تھا۔ہمیشہ اس کے ساتھ رہا کرتا تھا سفر میں بھی اسکے ساتھ رہا کرتا تھا ۔یہاں تک کہ ز چگی کے ایام میں بھی اس کی خدمت انجام دی۔عبدالکریم کو کوئین نے ’’ منشی ‘‘ کے لقب سے سرفراز فرمایا۔کوئین وکٹوریہ عبدالکریم کو دل و جان سے چاہنے لگی تھیں۔کریم کو انڈین سکریٹری کے عظیم عہدہ پر فائز کیا۔بہت جلد کریم کوئین کا شاہی خادم بن گیا۔وہ کوئین کے مزاج سے بخوبی واقف ہوگیا ۔کریم نے کوئین کو اردو زبان سکھانے لگا ۔ کوئین کے کہنے پر کریم نے بھی انگریزی زبان میں اور مہارت حاصل کرنے کیلئے ٹیوشن لینے لگا
۔اور روانی سے انگریزی بولنے لگا۔کوئین وکٹوریہ منشی کریم کی بہت تعریف کیا کرتی تھیں۔ منشی کو ایک سمجھدار اور مفید انسان کہنے لگی۔اور منشی کریم کوئین کا پہلا شخصی مددگار بن گیا۔منشی کی بڑھتی مقبولیت سے محل کے دوسرے لوگ حسد کرنے لگے۔کوئین نے منشی کی تعریف میں کئی خطوط لکھے ۔کوئین نے اپنے خطوط میں اس بات کا اعتراف کیا کہ منشی کریم میں بہت سی خوبیاں ہیں۔وہ بہت ہی نیک اور اچھا انسان ہے۔میں کریم کو دل وجان سے چاہنے لگی ہوں۔وہ میرے ہر اشارے کو سمجھتا ہے ۔ مجھے کسی چیز کی ضرورت ہو تو میرے کہنے سے پہلے وہ سمجھ جاتا ہے۔اور وہ ایک حق گو انسان ہے۔
وہ ایک عقلمند اور ہوشیار انسان ہے۔کوئین اور منشی کے درمیان تعلقات بہت ہی خوشگوار تھے۔وہ اس کے ساتھ ہنسی مذاق بھی کیا کرتی تھیں۔منشی اس کو لطیفہ سنا کر محظوظ کیا کرتا تھا اور وہ بہت ہنستی تھیں۔وہ خوش ہو کر میو ہ جات اور دوسرے اشیاء کھانے کے لئے دیا کرتی تھیں۔۱۸۸۸ ء کو کریم کے والد وزیر الدین اپنی نوکری سے سبکدوش ہوئے تو ٹیلر جان نے ان کے معاملہ میں مداخلت کی اور ان کے وظیفہ کو روک دیا کیونکہ ا ن کا لڑکا کوئین کے محل کا شاہی خادم ہے ‘ حسد کی بنا پر اس نے ایسا کیا ۔جب یہ بات کریم کو معلوم ہوئی تو کریم نے کوئین سے انڈیا روانہ ہونے کے لئے چار ماہ کی رخصت طلب کی ۔جب کوئین کو تمام واقعہ کا علم ہوا تو اس نے فی الفور اس وقت کے وائسرے آف انڈیاکو خط لکھا کہ اس معاملہ میں فوری مداخلت کریں اور اس مسئلہ کی یکسو ئی کریں۔
کوئین وکٹوریہ اور عبدالکریم کے بارے میں محل میں چہ میگوئیاں ہونے لگی ۔طرح طرح کی باتیں ہونے لگی۔کوئین نے ان تمام باتوں کو نظر انداز کردیا۔
ایک مرتبہ کریم گلے کے درد میں مبتلا ہوا تو کوئین نے اپنے شخصی طبیب سے اس کا علاج کر وایا۔کوئین روزانہ کریم کے کمرہ میں جاتی اس سے ہندوستانی زبانیں سیکھتیں اور اس سے باتیں کرتیں۔کوئین محل کے کسی فرد پراتنا بھروسہ نہیں کرتیں جتنا وہ منشی پر کرتی تھیں۔منشی عبدالکریم نے شاہی محل میں کوئین وکٹوریہ کی پندرہ سال خدمت کی۔۱۹۰۱ ء میں وکٹوریہ کے موت کے بعد ایڈوارڈ(Edward VII) نے منشی کو ہندوستان واپس بھیج دیا اور وکٹوریہ کی جانب سے دئے گئے تمام جائیداد ضبط کرنے کا حکم دیا۔آگرہ کے قریب کریم ا پنے مکان ’کریم لاج‘ میں زندگی کے آخری ایام گذارے۔اور 46 سال کی عمر میں وفات پائی۔ اور عبدالکریم منشی کو آگرہ کے قبرستان میں اپنے والد کے قبر کے بازو دفن کیا گیا۔