رانی وکٹوریہ کے تاج میں کافی اہمیت کا حامل نگینہ تھے عبدالکریمی نامی ایک ہندوستانی جو رانی کے لئے نہ صر ف سالن تیار کرتے تھے بلکہ اُردو بھی سیکھاتے تھے ۔رانی نے خاموشی کے ساتھ انہیں اپنے ساتھ جوڑنے کی بھی کوشش کی ۔وکٹوریہ اور عبدال کی مصنف شرابنی باسو نے منی مگدھا ایس شرما کو فلم جوڈی ڈنچ میں ان کے رشتہ کو پیش کئے جانے سے ہٹ کر بھی بہت کچھ باتیں بتائی ہیں۔ہندوستان میں مقبولیت کے برعکس‘ آپ کی کتاب رانی وکٹوریہ کے ہندوستان کے تئیں جذبات کا اظہارکرتے ہیں ۔ کیا آپ اس کے متعلق کچھ بتاسکتی ہیں؟۔
جب میں نے تحقیق شروع کی تو میں نے وکٹوریہ کو نہایت قابل شخصیت کا حامل پایا‘ جو سیاہ لباس زیب تن کئے ہوئے ہیں ‘ جوسلطنت کی نمائندگی کررہی تھی‘ جس نے مطلق العنان کو ختم کیا اورکوہ نور کو اپنے قبضے میں لیا۔ مگر جیسا میں نے ان کی مکتو بات اور اخبارات کا مطالعہ کیا‘ مجھے اندازہ ہوا کہ وہ کس قدر ہندوستانیوں سے محبت کرتی تھی۔ انہوں نے شاہی خاندان اور اپنے ہی گھر کے خلاف جاکر ہندوستانیوں کا بچاؤ کیا۔جب انہیں معلوم ہوا کہ وہ نسل پرست ہیں تو انہوں نے سخت چھٹیاں بھیجیں۔لہذا میں نے وکٹوریہ کی زندگی کے دوسری شبہہ کو میرے کتاب میں پیش کیاہے۔
وہ اس وقت یقیناًسب سے اوپر تھی اس کے علاوہ عدالت اور انتظامیہ میں سب سے ہٹ کر بھی تھیں۔ اور یہ سچ ہے کہ شاہی عدالت کے دلت میں ایک نوجوان ہندوستانی صاف طور پر دیکھائی دیتا تھا۔ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا او رنہ آج تک ہوا ہے۔
لہذا عبدال ہندوستان میں ان کی دروازہ تھے؟
لمبے سمندری سفر کی وجہہ سے رانی وکٹوریہ ہندوستان نہیں گئی ‘ ملک عبدالکریم کی صورت میں ان کے پاس پہنچ گیا۔انہوں نے رانی کو تاج محل کی خوبصورتی اور ہندوستانی تہواروں کے متعلق معلومات فراہم کئے‘ ان کاسالن بناتے او ریہاں تک انہیں اُردو بھی سیکھاتے تھے۔ یہا ں تک عبدالکریم نے رانی وکٹوریہ کو ہندو مسلم فسادات کے متعلق بھی بتایں بتائی اور اندر کے حقیقی ہندوستان سے بھی واقف کروایا۔
آپ نے تذکرہ کیا ہے کہ عبدالکریم اور دوسرے ہندوستانیوں کے تئیں شاہی خاندان کا حسد کے سبب وہ انہیں سیاہ برگیڈ قراردیتے تھے۔کیا عبدال کا ذاتی عقیدہ بھی اس کی ایک وجہہ تھا؟شاہی خاندان کریم سے نفرت کرتاتھا کیونکہ وہ ایک ہندوستانی تھا اور اس کا مقام کی اہمیت ( پرسنل سکریٹری) برائے رانی وکٹوریہ کی تھی۔ وہ کریم سے اس لئے بھی نفرت کرتے تھے کیونکہ وہ ایک عام آدمی تھے۔لہذا یہاں پر دونوں وجہہ نسل اور مقام نفرت کا سبب بنے۔ وہ لوگ اس لئے بھی نفرت کرتے تھے کیونکہ رانی ان پر بہت مہربان تھی ‘ ان تحائف‘ اراضی گھر او رجائیدادں کی بارش کرتی تھی۔برٹش انتظامیہ کو مسلمانوں پر شبہ تھا کیونکہ وہ ان کاتعلق آخری مغل حکمران سے تھا۔ ان لوگوں نے کریم پرافغانستان کے امیر کی جاسوسی کرنے کا الزام لگانے کی بھی کوشش کی کیونکہ کریم کا مسلم محب وطن لیگ میں ایک دوست تھا۔ جب وہ انڈیا میں چھٹیاں بتانے کے لئے جاتے تو ان کاتعقب کیاجاتا مگر شاہی خاندان کے لوگو ں کو کچھ بھی سراغ نہیں ملا۔تھک ہار کر ان لوگوں نے منشی کی حمایت کے سلسلے کو جاری رکھنے پراجتماعی استعفیٰ دینے کی دھمکی دی۔
رانی وکٹوریہ نے ہندوستان کو جاننے کے لئے اُردو سیکھی مگر آج کچھ ہندوستانی اُردو کو فراموش کررہے ہیں‘ اس کو غلامی کے دور کی زبان کہہ رہے ہیں‘ دوسروں کے برعکس آپ اس کے متعلق کیاکہتے ہیں؟
میں سمجھتی ہوں کہ یہ کافی اہمیت کی حامل بات ہے کہ رانی وکٹوریہ نے 13سالوں تک اُردوسیکھی۔ یہ وکٹوریہ تاریخ کو وہ حصہ جس کے متعلق کوئی نہیں جانتا۔ یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ ایک عظیم اور خوبصورت اُردو کو درکنار کیاجارہا ہے۔ یہ ہندوستان اور برطانیہ دونوں ممالک کی مشترکہ تاریخ ہے جس کو یاد کرنے کی ضرورت ہے۔
ہندوستانی مہاراجوں کے ساتھ وکٹوریہ کے تعلقات کے متعلق ہمیں بتائیں۔
مذکورہ رانی کے ہندوستانی مہاراجوں کے ساتھ بہتر تعلقات تھے۔ اکثر وہ ان کے پاس جاتی اور کئی مہارجاؤں کو وہ اپنے جوبلی تقاریب میں مدعو کرتے تھے۔ ان کے پاس مہاراجہ جودھ پور سر پرتاب کا بڑا احترام تھا۔مہاراجہ کوچ بہار نرپیندر نارائنہ اور ان کی پتی سنیتی دیوی سے رانی وکٹوریہ بڑے شوق سے ملاقات کرتی تھی۔ سنیتی دیوی وہ پہلی ہندوستانی مہارانی تھی جنھوں نے برطانیہ کو دورہ کیا اور1887میں گولڈ جوبلی تقاریب میں مہمانِ خصوصی کے طورپر مدعو کی گئی۔پنجاب کے آخری نوجوان حکمران مہاراجہ دلیب سنگھ سے ان کا خاص رشتہ تھا‘ وہ پنچاب کے زوال کے بعد ان کے پاس ہی جاکر رہ گئے تھے‘ دلیپ سنگھ ان کے پاس باغی کیفیت میں گئی تھے مگررانی نے ان کی پتنی او ربچوں کے ساتھ اپنے پاس رکھ لیا۔
اپنی زندگی کے اختتامی دور میں دلیپ سنگھ فرانس گئے اور اپنے اس عمل پر معافی مانگی ۔ رانی نے انہیں معاف توکردیا مگر اس سارے واقعہ نے رانی کو شدید ٹھیس پہنچائی تھی۔
آپ نے لکھا کہ 1901میں رانی کی موت کے بعد عبدال اور تم ہندوستانیوں کے ساتھ شاہی خاندان کے افر اد نے سرد مہری کا مظاہرہ کیا۔ کیایہی وجہہ ہے آج بھی برطانیہ میں غیر سفید وں کیساتھ اس طرح کا سلوک کیاجاتا ہے؟۔
کنگ ایڈورڈ ہشتم نے عبدال کو لکھے وکٹوریہ کے تمام مکتوبات کو نذر آتش کردیا اور عبدال کے گھر پر دھاوے کے احکامات جاری کئے ۔
دوسرے ہندوستانیو ں کی طرح عبدال نے بھی جانے کی بات کہی۔ اچانک وہاں پر مزید کوئی رنگ برنگی پگڑیاں نہیں تھی اور نہ ہی شاہی محل میں سالن پک رہے تھے۔ وہاں پر ’’ بیرونی لوگ گھر جاؤ‘‘ نمایاں دیکھائی دے رہا تھا۔
نسل پرستی آج بھی نہ صرف برطانیہ میں جاری ہے بلکہ ساری دنیا کا یہی حال ہے لہذا کہانی آج بھی اسی سے وابستہ لگتی ہے