نئی دہلی۔رام مندر کی تعمیر کو عدالت کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑا جاسکتا‘ جس طرح سومناتھ مندر کی تعمیر کے لئے قانون بنایاگیاتھا ان ہی خطوط پر کام کرتے ہوئے رام مندر کی تعمیر کیلئے بھی قانون کی ضرورت ہے‘ سادھوں او رسنتوں کی نہایت اثر دار اجلاس میںیہ بات کہی گئی ہے۔
دوروز تک چلی طویل بات چیت کے بعد جاری کردہ ایک پریس کانفرنس میں یہ بات کہی گئی کہ1994میں سپریم کورٹ کی جانب سے مسجد اسلامی کا اہم حصہ نہیں ہے کے متعلق سنائے گئے فیصلے کو ہتھیار بناکر فیصلے میں رکاوٹیں کھڑا کی گئی۔ ا
س میں کہاگیاکہ’’ اس معاملے کا رام مندر کے ساتھ کچھ لینا دینا نہیں ہے‘‘۔ کل ہند سنت سمیتی کے تحت منعقدہ ’’ دھرم سنسد‘‘ میں اس بات پر بھی غور کیاگیا کہ آر ایس ایس چیف موہن بھگوات نے بھی اس ضمن میں اپنا بیان دیا اور وی ایچ پی نے بھی اس پر اپنی رائے دی ‘ او رکہاگیاکہ سماج کے صبر کا امتحان بہتر چیز نہیں ہوتی۔ جاری کردہ بیان میں کہاگیاکہ سات سالوں سے ایودھیا کو ٹھنڈے بستے میں ڈال دیاتھا۔
سابق چیف جسٹس آف انڈیا دیپک مشرا نے اکٹوبر29کی تاریخ مقرر کی تھی جس کو نئی بنچ نے محض تین منٹ میں مسترد کردیا جنوری میں سنوائی کا فیصلہ سنادیا‘‘