رافائیل کے معاملے میں کانگریس بی جے پی کو مسلسل اپنی تنقید کا نشانہ بنارہی ہے۔ کانگریس کے رویہ سے ایسا محسوس ہورہا ہے وہ رافائیل معاہدے کو مجوزہ لوک سبھا الیکشن تک لے جائیں گے اور بی جے پی بالخصوص وزیراعظم نریندر مودی کو اپنے نشانہ پر رکھیں گے جو ہمیشہ کہتے ہیں کہ ’نہ کھاؤں گا اور نہ کھانے دونگا‘‘۔
رافائیل کو لے کر کانگریس اور بی جے پی قائدین اورترجمانوں کے درمیان میں لفظی جنگ اس وقت تیز ہوگئی جب فرانس کے سابق وزیر اعظم مسٹر ہولینڈ نے کہاکہ ’’ہمارے پاس کو دوسرا راستہ نہیں تھا۔
ہمارے پاس اس موضوع پر بولنے کے لئے کوئی الفاظ نہیں ہیں‘‘۔مسٹر ہالینڈ نے آگے کہاکہ’’حکومت ہند نے کمپنی متعارف کروائی اور ڈاسولڈ نے امبانی سے بات چیت کی‘‘۔
ہالینڈ کے مطابق ’’ لڑاکو ہوائی جہاز کی خریدی کے لئے حکومت ہندنے ادارے کا انتخاب کیاتھا‘‘۔یہاں پر سب سے بڑا تضاد پیدا ہوا ہے ۔
اس معاملہ پر بین الاقوامی ذرائع ابلاغ بھی مختلف زاویوں سے تحقیق کے بعد اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے اس با ت کا خدشہ ظاہر کررہا ہے کہ رافائیل معاملہ نہ صرف دل میں کچھ کالا ہے بلکہ پوری کی طوری دال کالی نظر آرہی ہے۔فرانس کی نیوز ویب سائیڈ میڈیا پارٹ نے اس ضمن میں کچھ تحقیقات کرتے ہوئے اپنی بھی پیش کی ہے۔
جس میں بتایاگیا ہے کہ ہندوستان نے فرانس کی ڈاسالڈ کمپنی سے 36رافائیل ہوائی جہاز خریدے۔وزیر اعظم نریندر مودی نے اس معاہدے کے لئے59,000کروڑ ادا کرنے کے لئے رضامندی کا اظہار کیا۔ریلائنس ڈیفنس کا ڈاسالڈ کمپنی سے معاملے میں مدد کے لئے الحاق عمل میں آیا۔
جس کے لئے اس کا 30,000کروڑ کی سرمایہ کاری ضروری تھی جو ہندوستان کی طرف سے ہوگی۔ریلائنس ڈیفنس کا دفاعی سازوسامان کی تیاری میں تجربہ بہت ہی کم ہے۔حکومت ہند کا اس ضمن میں کہنا ہے کہ ’’ کمرشیل فیصلے میں وہ کچھ بھی نہیں کہہ سکتی ہے‘‘۔
مگر سابق صدر فرانس فرانکو ہالینڈ جو معاہدے کے وقت فرانس کے صدر بھی تھے کا کہنا ہے کہ ’’ یہ سچ نہیں ہے‘‘۔یہاں پر حکومت ہند کا تضاد واضح طور پر دیکھنے کو ملتا ہے۔
حکومت ہند کا کہنا ہے کہ یہ فرانس کا معاملہ ہے اس میں ہم کچھ نہیں کہہ سکتے‘ انہوں نے امبانی کے معاہدے کا انتظام کیاہے۔مگر اب فرانس کا کہنا ہے کہ’’نہیں مسٹر امبانی کا تعارف حکومت ہند نے کیا ہے‘‘۔
ان کا کہا کہ ہے مسٹر امبانی کے ساتھ توجہہ کا تضاد نہیں ہے۔کیونکہ امبانی کی اس معاہدے میں آمد ہوئی ہے۔مذکورہ فرانس کی میڈیا ویب سائیڈ کا دعوی ہے کہ ان کا مقصد ہمیشہ سے بدعنوانی کو منظر عام پر لانا ہے جس کی وجہہ سے ہم نے اس معاہدے پر تحقیق کی اور رپورٹ پیش کردی