’راجیو گاندھی کی قیادت میں ہندوستان ہائیڈروجن بم کیساتھ تیار تھا‘

نیوکلیر پاکستان کا جواب دینے کیلئے …

رونالڈ ریگن دو ایشیائی پڑوسی ممالک میں مصالحت کیلئے خصوصی قاصد بھیجنا چاہتے تھے، سی آئی اے کے سنسنی خیز انکشافات

’’سخت ترین سکیورٹی کے سبب ہندوستانی نیوکلیر پروگرام کی تفصیلات جمع کرنا دشوار تھا‘‘

نئی دہلی 24 جنوری (سیاست ڈاٹ کام) دنیا کے سب سے زیادہ طاقتور اور خطرناک حد تک بااثر جاسوسی ادارہ سنٹرل انٹلی جنس آف امریکہ (سی آئی اے) نے حال ہی میں 1.20 کروڑ صفحات پر مشتمل 9,30,000 کلاسیفائیڈ دستاویزات آن لائن پیش کئے ہیں جس سے 1980 ء کی دہائی اور مابعد کے دور میں مختلف ممالک کے اہم و سنسنی خیز راز منظر عام پر آئے ہیں۔ سی آئی اے کی چند دستاویزات کے مطابق پاکستانی نیوکلیر پروگرام کا جواب دینے کے لئے 1985 ء میں راجیو گاندھی کی زیرقیادت ہندوستان نے ایک ہائیڈروجن بم کے تجربہ کی تیاری کی تھی۔ جنوبی ایشیاء میں نیوکلیر اسلحہ کی دوڑ میں تباہ کن اضافہ کے خطرناک اندیشوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے اُس وقت کے امریکی صدر رونالڈ ریگن نے ان دو پڑوسی ملکوں کے درمیان کشیدگی میں کمی اور مصالحت کے مقصد سے امریکی قاصد کو نئی دہلی روانہ کرنے کا منصوبہ بنالیا تھا۔ دنیا کا طاقتور جاسوسی ادارہ ہونے کے باوجود سی آئی اے نے ایک دستاویز میں اعتراف کیا ’اُس وقت‘ ہندوستانی سکیورٹی انتہائی سخت تھی چنانچہ دہلی کے نیوکلیر پروگرام کی تفصیلات جمع کرنا دشوار تھا۔ سی آئی اے نے دعویٰ کیاکہ راجیو گاندھی کی حکومت ایسا نیوکلیر دھماکہ کرنا چاہتی تھی جو 11 سال قبل ان (راجیو) کی والدہ اور سابق وزیراعظم اندرا گاندھی کی طرف سے کئے گئے نیوکلیر دھماکوں سے کئی گنا طاقتور ہوسکتا تھا۔ اُس وقت پاکستانی نیوکلیر ٹیکنالوجی سے ہندوستان بہت آگے تھا۔ سی آئی اے نے انکشاف کیاکہ ابتداء میں راجیو گاندھی اپنی والدہ کے نیوکلیر پروگرام پر پیشرفت سے پس و پیش کررہے تھے لیکن 1985 ء میں اُن کا ذہن افس وقت تبدیل ہوا جب یہ اطلاعات موصول ہوئیں کہ پاکستان اپنے نیوکلیر پروگرام پر پیشرفت کررہا ہے۔ راجیو گاندھی نے 4 مئی 1985 ء کو کہا تھا کہ نیوکلیر کلب میں شمولیت کے لئے پاکستان کی پے در پے کوششوں نے ہندوستان کو اپنی نیوکلیر پالیسی پر نظرثانی کے لئے مجبور کردیا ہے۔

سی آئی اے نے کہاکہ ممبئی کے قریب بھابھا ایٹمی ریسرچ سنٹر میں 36 سائنسدانوں کی ٹیم نے ہندوستان کا ہائیڈروجن بم بنایا تھا۔ امریکی جاسوسی ادارہ نے یہ دعویٰ بھی کیاکہ ہندوستان اپنے نیوکلیر اسلحہ کی تیاری کے لئے پلوٹونیم کا بھاری ذخیرہ کررہا تھا۔ سی آئی اے نے تخمینہ کیا تھا کہ ’’پاکستان کی جانب سے نیوکلیر اسلحہ کے اچانک و سلسلہ وار تجربات کی صورت میں ہندوستان فوری طور پر نیوکلیر اسلحہ کی تیاری کے لئے مجبور ہوسکتا تھا جس سے ان دونوں دیرینہ حریف پڑوسیوں کے درمیان ایٹمی اسلحہ کی دوڑ میں ہولناک اضافہ ممکن تھا‘‘۔ لیکن سی آئی اے کے دیگر تخمینوں کے مطابق بین الاقوامی سیاسی و اقتصادی ردعمل کا خوف ہندوستان کو پاکستان کی نیوکلیر تنصیبات پر حملہ کرنے سے روک سکتا تھا۔ علاوہ ازیں پاکستان نہیں بلکہ چین کو ہندوستانی سلامتی کے لئے ایک طویل مدتی خطرہ سمجھا جارہا تھا۔ ان غیر یقینی حالات میں رونالڈ ریگن کی طرف سے خصوصی ایلچی روانہ کئے جانے کے بارے میں سی آئی اے کی ایک دستاویز نے انکشاف کیا ہے کہ اُس وقت اس نظریہ پر ہندوستان کا رویہ زیادہ پرتپاک نہیں تھا۔ اس حقیقت سے قطع نظر وہ (ہندوستان / راجیو گاندھی) کسی امریکی ایلچی سے شخصی ملاقات کے خلاف بھی نہیں تھے۔ ان حالات کا تجزیہ کرنے کے بعد سی آئی اے نے ریگن انتظامیہ کو تجویز پیش کی تھی کہ امریکی قاصد کو اگرچہ راجیو گاندھی سے ملاقات ضرور کرنا چاہئے لیکن بات چیت کے بارے میں کوئی نتیجہ اخذ کرنے سے گریز بھی کیا جانا چاہئے۔