راجناتھ سنگھ زیرقیادت وفد کا محبوبہ مفتی سے تبادلہ خیال، حالات کو معمول پر لانے ہرممکن کوشش

٭ سید علی شاہ گیلانی نے ملاقات سے تک انکار کردیا
٭ میں دہلی آکر بات کرون گا ۔ یسین ملک کا موقف
٭ پاکستان سے بات چیت ضروری ۔ عبدالغنی بھٹ

سرینگر 4 ستمبر ( سیاست ڈاٹ کام ) کشمیر علحدگی پسند قائدین نے سخت ترین موقف اختیار کرتے ہوئے کشمیر جانے والے کل جماعتی پارلیمانی وفد کے پانچ اپوزیشن ارکان پارلیمنٹ سے ملاقات کرنے سے انکار کردیا ۔ جبکہ وفد نے کشمیر میں 56 روز سے جاری بدامنی کی کیفیت کو ختم کرنے کے لئے چیف منسٹر محبوبہ مفتی اور دیگر اصل دھارے کے قائدین سے تبادلہ خیال کیا ۔ اپنے دورہ کے پہلے دن وفد نے سماج کے مختلف گوشوں سے تعلق رکھنے والے تقریباً 30 مندوبین میں سے 200 ارکان سے ملاقات کی ۔ جموں و کشمیر کے موجودہ حالات کو فوری ختم کرنے مشترکہ حل تلاش کرنے کے لئے اپنے نقط نظر کو پیش کیا ۔ وزارت داخلہ سے جاری بیان میں کہا گیا کہ مرکزی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ کی قیادت میں وفد نے سماج کے اصل دھارے کے ارکان سے ملاقات کی جبکہ وفد میں شامل پانچ ارکان نے علحدگی پسندوں سے ملاقات کی کوشش کی ۔کشمیر میں علیحدگی پسند قائدین نے آج اپوزیشن جماعتوں کے پانچ ارکان سے ملاقات سے گریز کیا جو کل جماعتی وفد میں شامل تھے ۔ یہ ارکان علیحدگی پسندقائدین سے بات چیت کیلئے گئے تھے ۔ کٹر پسند حریت لیڈر سید علی شاہ گیلانی نے ان قائدین سے ملاقات کرنے سے بھی انکار کردیا ۔ چار ارکان پارلیمنٹ سی پی ایم جنرل سکریٹری سیتارام یچوری ‘ سی پی آئی لیڈر ڈی راجا ‘ جے ڈی یو لیڈر شرد یادو اور آر جے ڈی کے جئے پرکاش نارائن نے کل جماعتی وفد سے ہٹ کر گیلانی سے ان کی قیامگاہ پر ملاقات کیلئے گئے تھے ۔ سید علی شاہ گیلانی کو گذشتہ 60 دن سے گھر پر نظر بند رکھا گیا ہے ۔ گیلانی کی قیامگاہ کے باہر ان کا نعروں کے ساتھ استقبال کیا گیا ۔ گیلانی کے گھر کی گیٹ بھی ان کیلئے نہیں کھولی گئی ۔

گیلانی نے کھڑکی سے انہیں دیکھا تاہم ارکان پارلیمنٹ سے ملاقات کرنے سے گریز کیا ۔ شرد یادو نے تاہم کہا کہ یہ ہماری کوشش ہے کہ ہم یہ ظاہر کریں کہ ہم ہر شخص سے بات چیت کرنے تیار ہیں چاہے وہ ہم سے ملاقات کریں یا نہ کریں۔ یہ گروپ جے کے ایل ایف کے صدر نشین یسین ملک سے بھی ملاقات کیلئے گیا تھا جنہیں ہمامہ میں ایک بی ایس ایف کیمپ میں رکھا گیا ہے ۔ انہوں نے ارکان پارلیمنٹ سے کہا کہ وہ اس وقت بات چیت کرینگے جب وہ دہلی آئیںگے ۔ گروپ نے سابق حریت صدر نشین عبدالغنی بھٹ سے بھی ملاقات کی کوشش کی لیکن انہوں نے بھی ان ارکان سے بات چیت کرنے سے انکار کردیا ۔ بھٹ نے ان ارکان کا خیر مقدم کیا تاہم یہ واضح کردیا کہ یہ فیصلہ کرلیا گیا ہے کہ وفد کے ارکان کے ساتھ کوئی بات چیت نہیں ہوگی ۔ بھٹ نے کہا کہ یہ ایک بے سود کوشش ہے ۔ جب تک ہندوستان کشمیر پر پاکستان سے بات چیت نہ کریں اس وقت تک کچھ نہیں ہوگا ۔ اگر ہندوستان کشمیریوں سے بات کرے اور پاکستان بھی کشمیریوں سے بات کرے تو ہم کسی نتیجہ پر نہیں پہونچ سکتے ۔ ہم کو کوشش کرنی چاہئے کہ یہ مسئلہ حل کریں بصورت دیگر دونوں ملکوں کے مابین اختلافات جاری رہیں گے ۔ قبل ازیں علیحدگی پسندوں نے چیف منسٹر محبوبہ مفتی کی جانب سے انہیں کل جماعتی وفد سے ملاقات کیلئے دئے گئے دعوت نامہ کو مسترد کردیا اور کہا کہ یہ دھوکہ دینے کی کوشش ہے ۔

یہ وفد یہاں کشمیرکی صورتحال کا جائزہ لینے اور امن قائم کرنے کی کوشش کے طور پر یہاں آیا ہوا ہے ۔ وفد کل بھی یہاں مصروف رہے گا اور مختلف تنظیموں و افراد سے ملاقاتیں کرے گا ۔ وفد نے اپنے دو روزہ دورہ کشمیر کا آغاز کیا جس کے دوران امکان ہے کہ وہ سماج کے مختلف طبقات سے وادی میں امن بحال کرنے کے سلسلہ میں تبادلہ خیال کرے گا ۔ اس اجلاس کی صدارت وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے کی جو شیر کشمیر انٹرنیشنل کانفرنس سنٹر میں منعقد ہوا تھا ۔ کل جماعتی وفد کے یہاں پہونچنے کے فوری بعد یہ ملاقات ہوئی تھی جس میں وادی کی سکیوریٹی کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا ۔ اجلاس میں وادی میں 8 جولائی کے بعد سے ہو رہے تشدد میں زخمی ہونے والے افراد کی حالت کا بھی جائزہ لیا گیا ۔ ابتداء میں یہ تجویز کی تھی کہ یہ وفد 29 ارکان پارلیمنٹ پر مشتمل ہوگا تاہم صرف 26 ارکان پارلیمنٹ یہاں آئے ہیں۔ پارٹی خطوط سے بالاتر ہوتے ہوئے ان قائدین نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ مسئلہ کا کوئی حل دریافت کرلیا جائیگا اور وادی میں امن بحال کردیا جائیگا ۔ وادی میں پر تشدد مظاہروں اور فائرنگ کے واقعات میں اب تک 71 افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔

یہاں سینکڑوں افراد زخمی ہوئے ہیں۔ ریاستی وزیر تعلیم و سرکاری ترجمان نعیم اختر نے کہا کہ تمام فریقین کیلئے یہ ضروری ہے کہ وہ بات چیت میں شامل ہوجائیں ۔ انہوں نے کہا کہ ہم کب تک اس سلسلہ کو جاری رہنے دینگے ؟ ۔ اس کو کسی دن ختم ہونا ہے ؟ ۔ اس سوال پر کہ چیف منسٹر محبوبہ مفتی نے کل علیحدگی پسندوں کے نام مکتوب میں یہ واضح نہیں کیا تھا کہ بات چیت دستور ہند کے دائرہ میں ہوگی انہوں نے کہا کہ ہر فریق کو بات چیت کی میز پر اپنے معلنہ موقف کے ساتھ آنا ہوگا ۔ یہ سب کچھ اس بات پر انحصار کرتا ہے کہ ہم بات چیت کو کس طرح آگے بڑھاتے ہیںاور مسئلہ کو حل کرنے کیلئے کس خیال کا اظہار کیا جاتا ہے ۔