حقائق سے آگاہی کمیٹی کا سنسنی خیز الزام‘ سپریم کورٹ کے وکیل نے بتایا کہ پہلے پولیس اور انتظامیہ ڈیری کاروبار سے وابستہ مسلمانوں پر حملے کی راہ ہموار کرتے ہیں ہموار کرتے ہیں پھر ملزمین کو کلین چٹ دینے کے لئے ان کے حق میں ثبوت اکٹھاکرنے میں جٹ جاتے ہیں۔ اپوزیشن کی خاموشی پر اسے بھی آرے ہاتھوں لیا۔
نئی دہلی۔ہجومی تشدد اور اقلیتوں پر حملوں کی جانچ کے لئے راجستھان میں بھرت پور‘ الور ‘ راجسمند‘ اودئے پور اوردیگر متاثر ہ علاقوں کا دورہ کرنے والی حقائق سے آگاہی ٹیم نے یہاں گاؤ رکشکوں اور پولیس کے درمیان سازباز کا سنسنی خیز انکشاف کرتے ہوئے الزام لگایا ہے کہ یہاں کے ڈیری کے کاروبار سے وابستہ مسلمانوں پر حملے کی راہ خود پولیس اور انتظامیہ ہموار کرتا ہے اور پھرجرم کے ارتکاب کے بعد ملزمین کو بچانے کے لئے ان کی حمایت میں ثبوت اکٹھاکئے جاتے ہیں۔
بھومی ادھیکاراندولن کے بیانر تلے اراکین پارلیمان واسمبلی ‘سپریم کورٹ کے وکلا اورسماجی کارکنوں پر مشتمل ایک حقائق سے آگاہی ٹیم نے راجستھان میں اور خصوصی طور پر میوات خطے میں مسلمانوں کی حالت زار بیان کرتے ہوئے کہاہے کہ یہاں مسلمان دہشت کے سائے میں جی رہے ہیں۔ پولیس کا رویہ ان کے ساتھ معاندانہ ہی نہیں بلکہ پورے مسلم سماج کو بالکل اسی طرح’مجرم سماج‘ کے طور پر پیش کیاجارہا ہے جیسے انگریز اپنے دور میں چند قبائل کے ساتھ ’مجرم قبائل‘ کا دم چھلہ لگادیاکرتے تھے۔
معروف انگریزی اخبار دی ہندو اور مسلم مرر ڈاٹ کام کے مطابق تحقیقاتی ٹیم نے متاثر ہ علاقوں کا دورہ کرنے کے بعد میڈیا کو بتایا کہ راجستھان پولیس اور شہری انتظامیہ ہجومی تشدد میں ملوث سنگھ پریوار سے وابستہ ملزمین کو بچانے کے لئے مجرمانہ چشم پوشی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔بھرت پور میں کھاٹ میگاگاؤں کا دورہ کرنے کے بعد ٹیم کے ممبر اور رکن پارلیمنٹ کے راکیش نے بتایا کہ اس گاؤں کا ہر خاندان دودھ کے کاروبار سے وابستہ ہے اور ہر گھر میں گائے اور بھینس پائی جاتی ہے۔ یا درہے کہ اسی گاؤں کے محمد عمر کو گاؤ رکشا کے نام پر غنڈہ گردی کرنے والوں نے قتل کردیاتھا۔ حقائق سے آگاہی ٹیم نے حملہ آوروں کے لئے’’گاؤ دہشت گرد‘‘کے لفظ کا استعمال کیا ہے۔
ٹیم نے میں شامل آل انڈیا کسان سبھا کے رکن ویجو کرشنن نے بتایا کہ ’’ میوات خطے میں پورے مسلم سماج پر جرائم پیشہ ہونے کا لیبل لگانے کی کوشش کی جارہی ہے‘‘۔ انہو ں نے بتایا کہ اس ضمن میں پولیس محکمے کے چند عناصر باقاعدے کام کررہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ’’الور میں جہاں گائے کے نام پر سب سے زیادہ ہجومی تشدد ہوئے ہیں‘ ریونیو اور پولیس محکمے کے افسران سے گفتگو کے دوران ٹیم نے اقلیتی طنقے کے خلاف انتہائی قسم کے جانبداری کو محسوس کیا‘‘۔ بھومی ادھیکار آندولن کے مطابق’’ اس جانبداری کے نتیجے میں مسلمانوں کے خلاف گائے کی اسمگلنگ کے کئی جھوٹے اور بے بنیاد کیس رجسٹرڈ کے گئے ہیں‘‘۔
انہو ں نے بتایا کہ الور میں کلکٹر اور سپریڈنٹ آف پولیس کا رویہ انتہائی بے حسی پر مبنی تھا اور وہ یہی راگ الاپ رہے تھے ک جوحملوں کے جواز کے طورگاؤ رکشک الاپتے ہیں۔پولیس نے تحقیقاتی ٹیم کو ایک فہرست تک پیش جس میں مبینہ گاؤ رکشکوں کے نام درج تھے مگر جب یہ پوچھا گیا کہ ان میں سے کتنوں پرجرم ثابت ہوا ہے تو وہ بغلین جھانکنے لگے۔رکن پارلیمنٹ بدرالدجی خان نے اسے پولیس کی صریح جانبداری کا ثبوت قراردیا ۔ سپریم کورٹ کے وکیل پی وی سریندر نے اپنے مشاہدات کی بنیاد پر یہ سنسنی خیز الزام عائد کیا کہ ’’پولیس اور انتظامیہ نام نہاد گاؤ رکشکوں کے ذریعہ مسلم ڈیری کسانوں پر حملے کی راہ ہموار کرتے ہیں اور پھرملزمین کو بچانے کے لئے ثبوت اکٹھاکرنے میں جٹ جاتے ہیں‘‘۔