ذاتوں کا جھگڑا ، مودی کے لئے خطرہ

مسلم۔ دلت مل جائیں تو
بدل سکتا ہے ملک کا نظام

نئی دہلی۔یکم اپریل، ( سیاست ڈاٹ کام ) حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی میں روہیت ویمولا کی خودکشی کے تنازعہ کا کوئی حل برآمد ہونے سے قبل ہی امتیازات کی مختلف شکایات وزیر اعظم کے دفتر پہنچ رہی ہیں۔ راجستھان سنٹرل یونیورسٹی کے ایک طالب علم نے اسٹوڈنٹ ویلفیر ڈین پر امتیازات برتنے کا الزام عائد کرتے ہوئے خودکشی کی دھمکی دی ہے جبکہ بی آر امبیڈکر یونیورسٹی لکھنؤ کی 2 خاتون پی ایچ ڈی اسکالرس نے بھی ایک ہیڈ آف دی ڈپارٹمنٹ پر امتیازی سلوک کا الزام لگایا۔ ان طلباء نے اپنی شکایتوں کو مرکزی حکومت سے رجوع کردیا ہے اور یہ ادعا کیا ہے کہ یونیورسٹی کے انتظامیہ نے قصورواروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی ہے۔ دوسری طرف وزارت فروغ انسانی وسائل الزامات کے گھیرے میں ہے جس نے بعض طلباء کیخلاف حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی پر دباؤ ڈالا تھا تاہم وزارت نے اس طرح کے الزامات کو مسترد کردیا اور یہ ادعا کیا کہ یونیورسٹی کے قاعدہ و قانون کے مطابق کارروائی کی گئی تھی جبکہ یونیورسٹیز میں امتیازارات کے خلاف تازہ شکایات پر تبصرہ سے گریز کیا گیا۔ لیکن شکایات موصول ہونے کی تصدیق کی گئی ہے اور بتایا کہ مروجہ طریقہ کار ( میکانزم ) کے تحت ان شکایتوں کی یکسوئی کی جائے گی۔ راجستھان یونیورسٹی کے ایک طالب علم نے جو کہ کامرس میں ماسٹر ڈگری کررہا ہے یہ الزام عائد کیا کہ اسپورٹس کی سرگرمیوں میں پیشرفت کو ڈین (dean) عمداً روک دی ہے اور قومی مقابلوں میں شرکت سے محروم کردیا ہے۔ اس طالب علم نے وزیر اعظم اور وزیر فروغ انسانی وسائل ( ایچ آر ڈی ) کو مکتوبات روانہ کرتے ہوئے خود سوزی کرلینے کی اجازت طلب کی ہے۔

انہوں نے اپنی شکایت میں بتایا کہ سابق میں بھی طلباء کے ساتھ امتیازات برنے کے واقعات پیش آچکے ہیں۔ لہٰذا مذکورہ ڈین کے خلاف کارروائی کرنے کی ضرورت ہے۔ اگرچیکہ یونیورسٹی نے طالب علم کی شکایت کا جائزہ لینے کیلئے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے لیکن اس نے یہ سفارش کی ہے کہ معاملہ کی تحقیقات ایک آزاد( جس کا تعلق یونیورسٹی سے نہ ہو ) کمیٹی سے کروائی جائے کیونکہ ڈین نے کمیٹی کی دیانتداری پر سوال اٹھاتے ہوئے تعاون سے انکار کردیا ہے۔ ایک اور خاتون اسکالر نے بتایا کہ گزشتہ ایک سال سے شکایتیں کی جارہی ہیں لیکن یونیورسٹی حکام زبانی وعدے کرکے مسئلہ کو ٹال دے رہے ہیں جبکہ ہراسانی کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ ستم بالائے ستم ہماری پی ایچ ڈی ڈگری کو بھی تسلیم نہیں کیا جارہا ہے جس کے باعث طلباء اب یونیورسٹی کے بائیکاٹ پر مجبور ہوجائیں گے کیونکہ تاخیر کی وجہ سے ہمارا کیریئر اور روزگار کے مواقع متاثر ہوسکتے ہیں۔ ان حالات میں انصاف کی توقع کے ساتھ ہم نے مرکزی حکومت سے شکایت کی ہے۔ دریں اثناء سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ ہندوراشٹرا کا خواب لیکر جب سے بی جے پی مرکز میں برسراقتدار آئی ہے اسوقت سے آئے دن کوئی نہ کوئی تنازعہ پیدا ہورہا ہے۔ ابتداء میں سنگھ پریوار نے عیسائیوں اور مسلمانوں کو نشانہ بنایا لیکن اب تحفظات کے مطالبہ پر مختلف ذات پات کے لوگ حکومت کیخلاف اُٹھ کھڑے ہوگئے۔ راجستھان میں گجر طبقہ اور گجرات میں پٹیل برادری اور ہریانہ میں جاٹ طبقہ نے پرتشدد احتجاجی تحریک بھی چلائی ہے اور یونیورسٹیوں پر سنگھ پریوار کے نظریہ کو تھوپنے کی کوششوں کیخلاف بھی طلباء مزاحمت کیلئے کمربستہ ہوگئے چونکہ ہندوستان میں دلت اور مسلمان استحصال اور پسماندگی کا شکار ہیں اب انہیں بھی متحد ہونے کی ضرورت ہے تاکہ ملک میں سماجی، سیاسی اور معاشی تبدیلی لائی جاسکے۔