دیو بند کی تاریخی اہمیت : بقلم : ۔ فیروز بخت احمد 

ہندوؤں اورمسلمانوں دونوں کے لئے دیوبند کی اپنی اپنی تاریخی اہمیت ہے۔ جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے ان کے لئے اس علاقہ میں باعث کشش اہم مقامات ہیں ۔ جن میں گنگوہ شریف ، نانوتہ شریف ، پیران کلیر ، جھن جھانہ ، انبیٹھ وغیرہ ۔ ان جگہوں پر بہت سارے اولیاء کرام آرام فرمارہے ہیں ۔ ملک کے اسی خطے میں ایک بہت ہی قدیم تاریخی بستی جو دیوبند کے نام سے مشہور ہیں ۔ یہ الگ با ت ہے کہ اسلام کی عظیم ترین دینی درسگاہ دارالعلوم دیوبند کی وجہ سے اس بستی کو شہرت ملی ہے۔ آج دیوبند اسلامی اقدار ، ثقافت و اشاعت او ردینی علوم کا اہم ترین مرکز بن چکا ہے۔ روایات کے مطابق اس کا نام پہلے ’’ دیوی بن ‘‘ یادیبن ‘‘ تھا ۔ اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ اس کے قلعوں میں دیوؤں کو قید کیا جاتا تھا ۔ ’’ دیو ‘‘ کا مطلب دیوتا اور ’’ بن ‘‘ کا مطلب جنگل ہے۔ کثرت استعمال کی وجہ سے ’’ دیبن‘‘ بن گیا او رآگے چل کر ’’ دیوی بن ‘‘ گیا او رپھر آخر کار دیوبند سے مشہور ہوگیا ۔

مجد د الف الثانی رحمتہ اللہ علیہ کی سیرت ’’ زبدۃ المقامات ‘’ میں بھی دیبن کا ذکر ملتا ہے ۔ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ ’’دیوی کا بن ‘’ یعنی کسی دیوی کا جنگل ہے ۔ دیوبندکو کس نے آباد کیا ہے ۔ اس کے بارے میں کہنا مشکل ہے ۔ کیونکہ یہ بستی کافی قدیم ہے ۔ یہ بستی بکرماجیت سے بھی قدیم ہے ۔ ابو الفضل نے آئین اکبری میں لکھا کہ دیوبند قلعہ از خشت پختہ دارو ‘‘ یعنی یہاں پختہ اینٹوں سے تعمیر کئے گئے ایک قدیم قلعہ کے آثار بھی پائے جاتے ہیں۔ امپریل گزٹ آف انڈیا میں دیوبند کے حوالہ سے لکھا ہے کہ پانڈوں نے ملک بدر نے ہونے کی پہلی مدت یہیں گذاری تھیں ۔ مولانا ذوالفقار علی دیوبندی کے مطابق دیوبند کی تاریخی مساجد میں مسجد قلعہ سلطان سکندر لودھی ، مسجد خانقاہ شہنشاہ اکبر ، مسجد ابو المعالی او رنگ زیب تاریخی اہمیت کی حامل ہیں ۔ مولانا موصوف یہ بھی لکھتے ہیں کہ ایک دوسری روایت کہ مطابق دیوبند طوفان نوح کے قریب زمانے میں آبادتھا ۔ دیوبند میں تقریبا دیڑھ لاکھ کی آبادی ہے ۔

اس میں چھوٹے بڑے محلو ں میں رہتی ہے ۔بستی کے ایک جانب ہندو آباد ہیں تو دوسری جانب مسلمان ہیں ۔ درمیان میں ایک بازار ملتا ہے کچھ لوگ اسے سیکولر بازار کے نام سے جانتے ہیں۔ کیونکہ یہاں پر کبھی کبھی فرقہ وارانہ فسادات نہیں ہوئے یہاں تک کہ ۹۰ء کے دہے میں بابری مسجدسانحہ کے دوران سارے ملک میں ہندومسلم تشدد ہورہا تھاتو بقول مولاناقاری محمد عثمان منصورپوری دیو بند میں مطلق فسادنہیں ہوا۔ یہاں کی نصف آبادی مسلمانو ں کی ہے ۔ دیوبند میں انار اور آم پوری دنیا میں شہرت رکھتا ہے۔ رسیلے آموں کیلئے یہ جگہ بہت مشہور ہے۔ مگر یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ جب اردو تاریخ داں آمو ں کا ذکر کرتے ہوئے دلی ، لکھنؤ ، حیدرآباد وغیرہ کا ذکر کرتے ہیں لیکن دیوبند کا کوئی نام لیوا نہیں ۔ حقیقتت تویہ ہے کہ اگر آج اردو زندہ ہے تو اس وہ انہی مدارس اسلامیہ کی مرہون منت ہے۔ سچائی تو یہ ہے کہ ہندی بیلٹ میں پائی جانے والی اس سرزمین کو کہ جہاں دیوبند، ندوہ ، ندوۃالمصنفین اور دارالمصنفین جیسے اردو زبان اور ادب کے فروغ ا ور ارتقاء کے بنیادی ادرے ہیں اس کو اردو کا نخلستان کہا جائے تو مناسب ہوگا۔