حیدرآباد پانی میں محصور، کے سی آر دہلی میں مصروف

نظم و نسق کے تجربہ میں کمی، کے ٹی آر جائزہ اجلاس تک محدود،بارش سے متاثرہ خاندان پینے کے پانی اور غذا سے محروم
رشید الدین
حیدرآباد۔/23ستمبر، حیدرآباد اور رنگاریڈی گزشتہ تقریباً ایک ہفتہ سے عملاً پانی میں محصور ہیں اور لاکھوں عوام حالیہ عرصہ کی تباہ کن بارش سے پریشان ہیں لیکن ریاست کے حکمراں عوام کا حال چال جاننے کے بجائے نئی دہلی میں آرام کررہے ہیں۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ جو وزیر آبی وسائل اوما بھارتی کی جانب سے طلب کردہ اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کیلئے نئی دہلی گئے تھے لیکن اجلاس کے دو دن بعد بھی نئی دہلی میں ہی قیام پذیر ہیں جبکہ وہاں پہلے سے طئے شدہ کوئی سرکاری مصروفیات نہیں ہیں۔ حیدرآباد کو عالمی معیار کا شہر بنانے کے دعوے کئے گئے اور عوام کو سنگاپور، استنبول اور ڈیلاس جیسے ترقیافتہ شہروں کا خواب دکھایا گیا لیکن آج یہ دعوے کھوکھلے ثابت ہوچکے ہیں اور حیدرآباد شہر ایسے پسماندہ علاقے میں تبدیل ہوچکا ہے جہاں سڑکیں تک درست نہیں۔ چیف منسٹر اگرچہ روزانہ نئی دہلی سے صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں اور اس سلسلہ میں ان کے دفتر سے تفصیلی نوٹ جاری کیا جارہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کی ہدایات پر عمل آوری ہوتی دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ چیف منسٹر نے حیدرآباد کے سارے انتظام اور انصرام کو وزیر بلدی نظم و نسق کے ٹی آر کے حوالے کردیا جو مختلف محکمہ جات کے عہدیداروں کے ساتھ روزانہ جائزہ اجلاسوں میں مصروف ہیں۔ چیف منسٹر کی نئی دہلی میں موجودگی سے خود عہدیدار حیرت میں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ تباہی کی اس گھڑی میں چیف منسٹر کو حیدرآباد میں موجود رہتے ہوئے صورتحال کا برسر موقع جائزہ لینا چاہیئے تھا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اگر چیف منسٹر خود میدان عمل میں ہوں تو عہدیدار بھی متحرک رہتے ہیں لیکن چیف منسٹر نے تباہ کن بارش اور تباہ کاریوں کے باوجود بھی حیدرآباد واپسی کا فیصلہ نہیں کیا جو باعث حیرت ہے۔ حیدرآباد میں بارش سے جو تباہی ہوئی ہے اس کی سابق میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ شہر کا کوئی علاقہ ایسا نہیں جہاں تباہی کے منظر دیکھنے کو نہ ملیں۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ بڑے پیمانہ پر بچاؤ اور امدادی کام انجام دینے کا دعویٰ کرنے والی حکومت نے آج تک کسی علاقہ میں عوام کو امداد فراہم نہیں کی۔ رضاکارانہ تنظیموں کی جانب سے پانی میں گھرے ہوئے افراد کو غذا فراہم کی جارہی ہے لیکن حکومت نے آج تک اس طرح کا کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ شہر کے مضافاتی علاقوں اور رنگاریڈی میں کئی علاقے آج بھی پانی میں محصور ہیں اور عوام صاف پینے کے پانی اور غذا کو ترس رہے ہیں۔ علاقوں کے پانی میں محصور ہونے کے سبب احتیاطی طور پر برقی سربراہی مسدود کردی گئی تاکہ کسی ناگہانی سے بچا جاسکے۔ حکومت کی جانب سے غذا اور صاف پینے کے پانی کی عدم سربراہی سے عوام میں ناراضگی پائی جاتی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ نظم و نسقکو اس طرح کی ہنگامی اور ایمرجنسی صورتحال سے نمٹنے کا کوئی تجربہ نہیں لہذا صورتحال سے نمٹنے اور متاثرہ علاقوں میں امدادی کاموں کے سلسلہ میں کوئی ٹھوس اقدامات سے حکام قاصر ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ چیف منسٹر فوری طور پر حیدرآباد واپس ہوتے اور متاثرہ علاقوں کا دورہ کرتے ہوئے درکار فنڈز کی اجرائی عمل میں لاتے تاکہ بچاؤ اور راحت کے کام انجام دیئے جاسکیں۔ چیف منسٹر کی عدم موجودگی سے عہدیداروں میں بھی جوابدہی کا کوئی احساس نہیں ہے۔ دونوں اضلاع کے کلکٹرس کی جانب سے بھی اب تک متاثرہ علاقوں میں کوئی امداد فراہم نہیں کی گئی۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ شہر سے تعلق رکھنے والے وزراء بھی اپنے اپنے علاقوں تک محدود ہوچکے ہیں حالانکہ وزراء کی ذمہ داری تھی کہ وہ تمام متاثرہ علاقوں کا دورہ کرتے۔ تباہ کن بارش اس بات کی متقاضی ہے کہ حکومت کی جانب سے فوری متاثرہ علاقوں میں بچاؤ اور راحت کیمپس شروع کئے جائیں جن میں متاثرہ خاندانوں کو منتقل کرتے ہوئے ان کی بنیادی ضرورتوں کی تکمیل کی جائے۔ بارش کے باعث حیدرآباد تمام سڑکیں تباہی کا منظر پیش کررہی ہیں اور خاص طور پر نئے شہر کے علاقوں میں پہلی مرتبہ بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے۔ متاثرہ خاندان حکومت کی امداد کے منتظر ہیں۔ بعض عہدیداروں کا ماننا ہے کہ نظم و نسق میں تجربہ کار عہدیداروں کی کمی کے نتیجہ میں یہ صورتحال پیدا ہوئی ہے اور گذشتہ دو برسوں میں حکام نے بارش سے نمٹنے کیلئے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی۔ محکمہ موسمیات کی پیش قیاسی کے مطابق اگر آئندہ چند دن تک بارش کا سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو نہ صرف مزید تباہی کا اندیشہ ہے بلکہ جانی و مالی نقصانات ہوسکتے ہیں۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کو فوری طور پر حیدرآباد واپس ہوتے ہوئے امدادی و راحت کاموں کی کمان اپنے ہاتھ میں لینی ہوگی۔