دہلی یونیورسٹی اسٹوڈنٹ یونین الیکشن میں تشدد ‘ پرنسپل نے اے بی وی پی ممبران پر لگایا الزام

پیر کے روز اس وقت یہ واقعہ پیش آیا جب اے بی وی پی کے نائب صدر امیدوار شکتی سنگھ نے کالج کے لئے اپنی مہم کو اختتام کے بعد بھی 8بجے رات تک جاری رکھا تھا۔
نئی دہلی۔دہلی یونیورسٹی اسٹوڈنٹ یونین( ڈی یو ایس یو) کی انتخابی مہم کے آخری روزاکھیل بھارتیہ ویدیارتھی پریشد ( اے بی وی پی)کے کارکنوں نے مبینہ طور پر ذاکر حسین ( اویننگ) کالج میں توڑ پھوڑ مچائی اور طلبہ کے ساتھ عملے کے ساتھ مارپیٹ کی ۔

پیر کے روز اس وقت یہ واقعہ پیش آیا جب اے بی وی پی کے نائب صدر امیدوار شکتی سنگھ نے کالج کے لئے اپنی مہم کو اختتام کے بعد بھی 8بجے رات تک جاری رکھا تھا۔

کالج پرنسپل مسرور احمد بیگ نے دعوی کیا ہے کہ ’’ میں نہیں جانتا یہ کس طرح شرو ع ہوا ‘ مگر میں حل چل کی آوازیں سن پر حیران ہوگیاتھا۔ انہوں نے کالج میں توڑ پھوڑ کی ‘ کرسیاں توڑ دیں اور پھولوں کے گملے بھی پھینک دئے۔

اے بی وی پی کے کارکن ہی تھے جنھوں نے طلبہ کے ساتھ مارپیٹ کی۔انہوں نے عملے اور لڑکیوں کے ساتھ بھی بدسلوکی کی‘‘۔پولیس کو طلب کیاگیا ہے اور بیگ نے بتایاکہ کالج انتظامیہ اس ضمن میں شکایت بھی کررہا ہے۔

ڈی سی پی( سنٹرل) رندیپ سنگھ رندھاوا نے کہاکہ ’’ موقع پر پولیس موجود تھے جس نے ہجوم پر قابو پالیا۔ کالج انتظامیہ کی جانب سے اب تک کوئی شکایت درج نہیں کرائی گئی ہے‘‘۔

کالج کے ایک طالب علم نے دعوی کیاکہ اپنے حامیوں کی کثیرتعداد کے ساتھ جب سنگھ کالج میں داخل ہونے کی کوشش کررہا تھا تب انہیں روکدیاگیا۔اپنی شناخت پوشیدہ رکھتے ہوئے مبینہ طور پر مذکورہ طالب علم نے کہاکہ ’’ انہیں کہاگیاتھا کہ وہ اپنی مہم کے لئے کچھ طلبہ کو لے سکتے ہیں۔

وہ لوگ برہم ہوگئے اور کالج کے سامان کونقصا ن پہنچانا شروع کردیا اور بیہودہ تبصرہ کرنے لگے‘‘۔

ایک ویڈیو میں کچھ لوگوں کو پلے ہارڈس اپنے گلے میں باندھے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے جس پر لکھا ہے کہ ’’ شکتی سنگھ‘‘ اور وہ پھولوں کے گملے توڑتے ہوئے ‘لاٹھی تھامے طلبہ کا تعقب کرتے ہوئے ‘ کرسیوں کو توڑتے ہوئے واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے

اے بی وی پی کے قومی میڈیاکنونیر مونیکا چودھری نے کہاکہ ’’ ہماری سنگھ سے بات نہیں ہوئی ہے۔ مگر جو لوگ تشدد میں ملوث ہیں وہ اے بی وی پی کے کارکن نہیں ہیں۔ سنگھ کالج میں اپنی مہم کے لئے گیاتھا۔طلبہ کے دونوں گروپس کے درمیان لڑائی کی وجوہات پتہ لگانے کی کوشش کررہے ہیں‘‘۔

دیگر طلبہ جو انتخابات کا حصہ ہیں نے تشدد کی مذمت کرتے ہوئے پولیس کاروائی کامطالبہ کیا۔